بھارتی آبدوز کو مستعد پاک بحریہ نے گھیر لیا تھا

0

اقبال اعوان
بھارتی فضائیہ کی ناقص کارکردگی کے بعد بھارتی بحریہ بھی نا اہل نکلی۔ اتوار کے روز پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے والی بھارتی آبدوز کو پاک بحریہ نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ فرانسیسی ساختہ اسکارپین ٹائپ انڈین سب میرین کو پاک نیوی کے نگران اٹلانٹک طیارے نے ٹریک کیا تھا۔ اطلاع ملتے ہی مستعد پاک بحریہ نے اس کا محاصرہ کر لیا، جو تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران انڈین سب میرین سے کمیونی کیشن بھی ہوئی۔ جس میں بھارتی عملہ عذر تراشتا رہا کہ وہ غلطی سے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسلام آباد سے ہدایت ملنے کے بعد بھارتی آبدوز کو واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یاد رہے کہ 2016ء میں بھی جاسوسی کرنے والی بھارتی آبدوز کو پکڑ لیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق حساس اداروں نے چند روز قبل آگاہی دی تھی کہ بھارتی بحریہ کوئی کارروائی کر سکتی ہے۔ ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلی علاقوں سے ایسی اطلاعات آ رہی تھیں کہ بھارتی بحریہ کی موومنٹ پاکستان کی سمندری حدود کی جانب دیکھی گئی ہے، جس کے بعد پاک بحریہ کو انتہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ اتوار 4 مارچ کو شام 6 بجے پاک بحریہ کا اٹلانٹک طیارہ اپنی سمندری حدود میں پرواز کر رہا تھا کہ اس کو کراچی سے 80 ناٹیکل میل دور بین الاقوامی سمندر میں پاکستان کی جانب بھارتی آبدوز کا سراغ ملا۔ پاک بحریہ کے نگراں طیارے نے کراچی میں بحریہ کے کنٹرول روم کو بتایا کہ ایک آبدوز کو ٹریک کیا گیا ہے۔ کچھ دیر بعد اس آبدوز کا کچھ حصہ اوپر آیا تو اٹلانٹک کے عملے نے آبدوز کے مقام پر ’’سونار بوائے‘‘ (مواصلاتی ڈیوائس) پھینکا اور آبدوز کے عملے کو کہا گیا کہ ان کو دیکھ لیا گیا ہے، لہذا فرار ہونے کی کوشش نہ کریں۔ آبدوز کے عملے نے اپنی شناخت کرائی کہ وہ بھارتی بحریہ کی آبدوز ہے اور راستہ بھول کر ادھر آگئی ہے۔ ادھر بھارتی آبدوز کو پاک بحریہ نے گھیرے میں لے لیا اور اعلیٰ افسران کو اطلاع دی گئی، جنہوں نے اسلام آباد سے رابطہ کیا۔ اسلام آباد سے ہدایات آئی کہ پاکستان چونکہ خطے میں امن کی کوشش کر رہا ہے، لہذا اس آبدوز کی مکمل ریکی اور پکڑنے کے شواہد لے کر اسے جانے کی اجازت دے دی جائے۔ یوں رات 8 بج کر 37 منٹ پر اس آبدوز کو جانے کی اجازت دی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھارتی بحریہ کی اسکارپن (SCORPION) ٹائپ آبدوز تھی۔
بھارت نے فرانس سے اس قسم کی دو آبدوزیں حاصل کی تھیں۔ پکڑی جانے والی آبدوز 2017ء میں حاصل کی گئی تھی۔ مزید 4 آبدوزیں دونوں ملکوں میں تیار ہو رہی ہیں۔ یہ میزائل بردار آبدوز ہے۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نیوی کے پاس جہاں جدید ٹیکنالوجی موجود ہے، وہیں تربیت یافتہ افسران کی کمی بھی نہیں ہے۔ اٹلانٹک طیارہ آبدوز تلاش کرنے کا ماہر کہلاتا ہے۔ آبدوز کا سراغ لگانے کے بعد یہ سونار بوائے (SONAR BOUY) پھینکتا ہے تو کمیونیکشن وائر (WIRE) کے ذریعے ٹریک کی گئی آبدوز سے رابطہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے بحری جہازوں اور آبدوزوں کو بھی اطلاع کردی جاتی ہے کہ فلاں ایریا میں ایک حریف آبدوز موجود ہے۔ واضح رہے کہ پاک بحریہ کے پاس P-3 طیارے بھی موجود ہیں، جو آبدوز تلاش کرنے اور آبدوز کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پی این ایس مہران پر حملے میں دہشت گردوں کا اصل ہدف یہی طیارے تھے۔ بھارت، پاک بحریہ کے اس قسم کے طیاروں کو تباہ کرنے کی ناپاک کوشش کئی بار کر چکا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اگر اس بھارتی آبدوز کا پاک بحریہ سراغ نہ لگاتی تو یہ پاکستانی حدود کے اندر موجود پاک نیوی کے جہازوں کو میزائل حملہ کا نشانہ بناسکتی تھی۔ تاہم پاک بحریہ الرٹ ہے اور اس واقعے کے بعد پاک بحریہ کو مزید الرٹ کر دیا گیا ہے۔ بھارت کو کسی بھی طرح کی سمندری کارروائی کی صورت میں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے فرانس سے ان جدید آبدوزوں کے حصول کا معاہدہ کیا تھا۔ 2017ء میں دو آبدوزیں دی گئیں۔ جبکہ چار مزید آبدوزوں کی تیاری فرانس اور بھارت میں مشترکہ طور پر کی جارہی ہے۔
پاک بحریہ کے ترجمان نے ’’امت‘‘ کی جانب سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پاک بحریہ مکمل طور پر ہائی الرٹ ہے اور اس کا واضح ثبوت دے چکی ہے کہ اس نے اپنی سمندری حدود میں آنے والی بھارتی آبدوز کو پکڑ لیا تھا۔ اگر اوپر سے ہدایات ملتیں تو اسے تباہ بھی کر سکتے تھے۔ تاہم پاکستان امن قائم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ لہذا بھارتی آبدوز مکمل طور پر نرغے میں لینے کے باوجود چھوڑ دی گئی۔ یہ ہمارے جہازوں کو نشانہ بنا سکتی تھی یا میزائل فائر کر سکتی تھی۔ تاہم بزدل بھارت کا سمندری حدود میں حملہ بھی ناکام بنادیا گیا اور پاک بحریہ کو مزید الرٹ کر دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More