اسلام آباد/راولپنڈی(نمائندگان امت/مانیٹرنگ ڈیسک)جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کوکالعدم قرار دینے کے بعدحکومت نے کریک ڈائون کرتے ہوئے دونوں تنظیموں کی مساجد،مدارس اوراسپتالوں کوتحویل میں لینا شروع کردیا۔ متعدد افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ جماعت الدعوۃ کے مدارس اوراسکولوں پرحکومتی کنٹرول سے ہزاروں طلبہ کامستقبل خطرے میں پڑ گیا۔قباء اسلامک اسکول کاآخری پرچہ منسوخ کردیا گیا۔راولپنڈی میں اسپتال،مدرسہ اور 2 ڈسپنسریاں سیل کردی گئیں۔اسلام آباد میں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کی مساجد میں3نئے خطیب مقرر کردئے گئے۔۔وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کہا ہے کہ کارروائی بیرونی دبائو پرنہیں کی جارہی۔ تفصیلات کے مطابق جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو کالعدم قرار دینے کے بعدحکومت نے دونوں تنظیموں کیخلاف کریک ڈائون شروع کردیا ہے۔ مدارس اوراسکول تحویل میں لینے سے ہزاروں طلبہ متاثر ہو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں جماعت الدعوۃ کے قباء انٹر نیشنل اسلامک اسکول آئی ایٹ کو بھی تحویل میں لے لیا گیا اور بدھ کے روز ہونے والا آخری پرچہ منسوخ کردیا گیا ۔ انتظامیہ کی جانب سے والدین کو فون کرکے بتایا گیا کہ بچوں کو اسکول نہ بھیجاجائےاور پرچہ 18 مارچ لیا جائیگا ۔اسکول میں جماعت ہفتم تک تعلیم دی جاتی تھی ۔’’امت‘‘کو ایک بچے کے والد نے بتایا کہ اسکول میں تقریبا 4سو بچے زیر تعلیم ہیں جن کو آخری پرچہ دینے سے بھی روک دیا گیا۔اس اقدام سے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا خطرہ ہے۔اسکول کو ایک دن بعد بھی بند کیا جاسکتا۔ حکومتی اقدام سے اچھا پیغام نہیں ملا۔ دریں اثناوفاقی حکومت کے حکم پر کالعدم تنظیموں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔محکمہ اوقاف نےوفاقی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں کالعدم تنظیموں کےزیرانتظام 10سے زائد مساجدومدارس کاکنٹرول سنبھال لیااور امام مسجداورمہتمم تبدیل کردئیے ہیں ۔ذرائع کےمطابق اسلام آباد کےمختلف علاقوں میں تین مساجد اوردو مدارس کوتحویل میں لےلیاگیاجن کاانتظام اس سےقبل کالعدم تنظیموں کےپاس تھا۔تحویل میں لی گئی مساجدمیں مسجدقبا،مدنی مسجداورعلی اصغرمسجدشامل ہےجبکہ مدرسہ خالدبن ولیداورمدرسہ ضیاءالقرآن کوبھی تحویل میں لےکراسکاکنٹرول انتظامیہ نےسنبھال لیاہے۔ذرائع کاکہناہےکہ ان مساجدومدارس کونیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکےتحت تحویل میں لیاگیاہےاورمحکمہ اوقاف نےان مساجدکےنئےامام اورخطیب بھی مقررکردیے ہیں ۔مولانایاسین کومسجدقباءسےہٹاکرحفیظ الرحمان سندھی کوخطیب مقررکردیاگیاجو جامعہ سلفیہ فیصل آبادکے فارغ التحصیل ہیں اور اس سے قبل جامع مسجدمحمدی جی نائن ٹوکے خطیب بھی خطیب رہ چکے ہیں جبکہ مدنی مسجدسےمولانااظہرعباسی کوہٹاکرمولاناعمر فاروق کوخطیب مقررکیا گیا ہے۔مسجدعلی اصغر سےخطیب یارمحمدکوہٹاکرقاری محمدصدیق کومقررکردیاگیاہے۔ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کیا جارہا ہے۔راولپنڈی میں کالعدم جماعت الدعوۃ کی 2 ڈسپنسریز، اسپتال اور مدرسے کو سیل کردیا گیا۔ چاکرہ اور اڈیالہ روڈ پر قائم ابوبکر اسپتال، مدرسہ اور 2 فلاحی ڈسپنسریوں کو سیل کردیا گیا ہے، تاہم کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا۔کالعدم تنظیموں کےخلاف شروع کی گئی کارروائی کی نگرانی کےلئےوزارت داخلہ میں خصوصی سیل قائم کررہا ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ جماعت الدعوۃ سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے تمام اثاثوں کی مکمل فہرست تیار کرلی گئی ہے جہاں کارروائی کی جائیگی ۔ ذرائع کے مطابق ملک گیر کریک ڈائون میں متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔علاوہ ازیں وفاقی وزیرمذہبی امور نورالحق قادری نے کہا ہے کہ علما پریشان نہ ہوں، یہ اقدامات پہلے سے طے شدہ تھے، کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں جبکہ وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدیکا کہنا ہےکہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کے لیے کوششوں کو تیز کیا جارہا ہے۔سوشل میڈیا پر جاری بیان میں شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن مقاصد کے حصول تک جاری رہے گا اور یہ آپریشن نیشنل ایکشن پلان 2014 کے تحت کیا جارہا ہے۔
کراچی (رپورٹ/ ارشاد کھوکھر)وفاقی حکومت نے چاروں صوبائی حکومتوں کو کالعدم جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) کے تمام اثاثے تحویل میں لینے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں جس کی روشنی میں حکومت سندھ نے صوبے بھر میں موجود ایسے تقریباً 56 اسکولز، اسپتالوں اور مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کے انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ مذکورہ کالعدم تنظیموں کے مزید افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کے ساتھ فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے اکاؤنٹس وغیرہ منجمد کرنے، اسلحہ لائسنس، پاسپورٹس منسوخ کر کے سفری پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ سختی بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ،فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور ایشیائی بحر الکاہل گروپ کی سفارشات کی روشنی میں کئے جا رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے 5مارچ 2019ء کوجماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو انسداد دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997 کے تحت کالعدم قرار دے کر ان پر پابندی لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد اس ضمن میں چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی قانونی کارروائی کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مذکورہ تنظیموں کا نام فرسٹ شیڈول میں شامل کیا گیا۔ اس ضمن میں اعلیٰ سطح کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے احکامات اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی روشنی میں مذکورہ دونوں جماعتوں کے تمام اثاثے بھی اپنی تحویل میں لینے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے جو اثاثے تحویل میں لئے جائیں گے ان میں مذکورہ کالعدم تنظیموں کی زیر انتظام سندھ کے 29 میں سے تقریباً 17 اضلاع میں چلنے والے 31 اسکولز، 9 اسپتال، 16 مدارس اور مختلف دفاتر تحویل میں لینے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اداروں میں کراچی ڈویژن کے تمام اضلاع میں واقع 10 اسکول، 5 اسپتال اور 16 مدارس، ضلع حیدر آباد میں واقع 3 اسکول، ایک مدرسہ، ضلع مٹیاری میں واقع 2 اسکول، ضلع میر پور خاص میں واقع 3 اسکول، ایک اسپتال، ضلع سانگھڑ کے 4 اسکول، ضلع ٹنڈو الہ یار میں 3 اسکول، ایک مدرسہ، ضلع تھرپارکر میں ایک اسکول، 2 اسپتال، ایک مدرسہ، ضلع نوشہرو فیروز کا ایک مدرسہ، ضلع بے نظیر آباد میں 2 اسکول، 3 مدارس اور ضلع قمبر شہداد کوٹ میں مذکورہ تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والا ایک اسکول شامل ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کے محکمہ داخلہ نے حتمی منظوری کے لئے وزیراعلیٰ سندھ کو سمری ارسال کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق تحویل میں لئے جانے والے اسکول، مدارس اور اسپتالوں کو حکومت کے زیر انتظام چلانے کے لئے متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کی نگرانی میں کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جو متعلقہ اضلاع کے اداروں کو چلانے کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کریں گی تاکہ ان اداروں میں زیر تعلیم بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو۔ ان اداروں کو چلانے کے لئے پہلے دو تین برس کے لئے فنڈز وفاقی حکومت متعلقہ صوبائی محکمہ خزانہ کےتوسط سے جاری کرے گی جس کے بعد ان اسکولز وغیرہ کو صوبائی محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے براہ راست زیر انتظام چلایا جائے گا۔ ان اداروں کے اخراجات بھی پھر متعلقہ صوبائی حکومتیں برداشت کریں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اسکولوں اور مدارس میں مکمل طور پر وہی نصاب پڑھایا جائے گا جو سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور اسکولوں کے لئے ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوں گے، وہ محکمہ تعلیم کے ڈی ای او اور اے ڈی ای او سطح کے افسران ہو سکتے ہیں اور اداروں کو چلانے کے لئے متعلقہ انتظامیہ کو ڈی ڈی او کے اختیارات دے کر الگ اکاؤنٹس کھولے جائیں گے اور ان اسکولوں اور اسپتالوں وغیرہ میں اس وقت خدمات انجام دینے والے اساتذہ اور اسٹاف ڈاکٹروں وغیرہ کو بھی چھان بین کے مرحلے سے گزرنا ہو گا۔ مذکورہ اداروں کو چلانے کی نگرانی کے لئے صوبائی سطح پر صوبائی سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کے ممبران میں ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ پولیس، اسپیشل سیکرٹری صوبائی محکمہ داخلہ اور چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کے نام شامل ہیں جبکہ کراچی میں کمشنر کراچی کی سربراہی میں کمیٹی بنے گی جس کے ممبران ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس، محکمہ تعلیم کراچی کے ڈائریکٹر، محکمہ صحت ڈویژنل ہیڈ اور محکمہ اوقاف کے ڈویژنل ہیڈ شامل ہوں گے جبکہ ضلعی سطح پر متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کی سربراہی میں کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے ممبران میں متعلقہ ضلع کا ایس ایس پی، محکمہ تعلیم کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) محکمہ صحت کے ڈی ایچ او، محکمہ اوقاف کے ڈسٹرکٹ افسر شامل ہوں گے۔ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو آگاہ کیا ہے کہ مذکورہ تنطیموں پر پابندی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر (1999) 1267 اور 1373 اور ایف اے ٹی ایف اور ایشیائی بحر الکاہل گروپ (اے پی جی) کے فیصلوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں عائد کی گئی ہے۔ اس ضمن میں دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ مشکوک سرگرمیوں کے باعث انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول میں جن افراد کے نام شامل کئے جائیں گے وفاقی حکومت نے ان کے خلاف بھی سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے نیکٹا چاروں صوبوں کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے احکامات جاری کر چکی ہے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے جن افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کئے جاتے ہیں ان کے حوالے سے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں یہ بات پہلے سے موجود ہے کہ ایسے افراد جب تک کلیئر نہیں ہو جاتے تب تک ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے، ان کے پاسپورٹس اور اسلحہ لائسنس منسوخ، بغیر اجازت کے متعلقہ علاقوں سے کہیں اور ضلع وغیرہ میں سفر کے لئے بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے اور ان کے تمام اثاثوں وغیرہ کی بھی چھان بین کا معاملہ بھی قانون میں شامل ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ملک بھر میں جن افراد کے نام فورتھ شیڈول کی فہرست میں شامل ہیں ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار 2 ہزار تک ہے جن میں سے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کی تعداد تقریباً پونے پانچ سو ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پہلے بھی فورتھ شیڈول کی فہرست میں شامل افراد کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جانی تھی اور وہ متعلقہ تھانے اور اتھارٹی کو طلب کرنے پر پیش ہونے کے پابند رہے ہیں تاہم اب انسداد دہشت گردی ایکٹ میں جو دیگر پابندیاں وغیرہ ہیں ان کا بھی ایسے افراد پر اطلاق کا مرحلہ وار اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔