امت رپورٹ
وزارت داخلہ کی جانب سے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد دونوں تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے۔ بدھ کی رات یہ رپورٹ فائل کرنے تک حافظ سعید سمیت جماعت الدعوۃ کے کسی مرکزی رہنما کی گرفتاری کی اطلاع تو موصول نہیں ہوئی تھی۔ تاہم ضلعی اور تحصیل سطح پر متعدد ذمہ داران اور رضاکاروں کو حراست میں لیا جاچکا تھا۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو کالعدم قرا دینے کا فیصلہ چار پانچ ماہ قبل کرلیا گیا تھا۔ جس کے بعد منظم کارروائی کے لئے ہوم ورک شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں پچھلے چند ماہ کے دوران ملک بھر میں جماعت الدعوۃ کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے زیر انتظام چلنے والی ڈسپنسریوں، اسپتالوں، ایمبولینسوں، مساجد، مدارس، اسکولوں، دفاتر اور پروجیکٹس کا مکمل ریکارڈ حاصل کیا گیا۔ حتیٰ کہ ڈسپنسریاں، اسپتالوں، اسکولوں کو چلانے والے ذمہ داران اور ایمبولینسوں کے تمام ڈرائیوروں کا ذاتی ڈیٹا بھی جمع کیا گیا۔ جس میں ڈرائیوروں کے نام، ان کے شناختی کارڈ نمبرز اور رہائشی ایڈریس وغیرہ شامل تھے۔ ڈیٹا کی ایکوریسی کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ بدھ کے روز جب پنجاب کے ایک چھوٹے قصبے میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کی پانچ ایمبولینسیں مقامی انتظامیہ کے حوالے کی گئیں تو انتظامیہ کے ایک اہلکار نے ہاتھ میں پکڑی لسٹ کھولی اور کہا کہ یہاں آٹھ ایمبولینسیں چل رہی تھیں۔ فلاں فلاں نمبرز کی تین ایمبولینسیں موجود نہیں۔ ذرائع کے مطابق صرف بدھ کے روز پنجاب کے مختلف شہروں سے فلاح انسانیت فائونڈیشن کی ڈیڑھ سو سے زائد ایمبولینسیں کنٹرول میں لے کر 1122 کے حوالے کی جاچکی تھیں۔ جبکہ یہ آپریشن ابھی جاری تھا۔ اسی طرح جماعت الدعوۃ کے زیر انتظام متعدد مساجد کا کنٹرول بھی محکمہ اوقاف نے سنبھال لیا ہے ۔ ان مساجد کے موذن اور خطیب تبدیل کردیئے گئے ہیں اور ان کی جگہ سرکاری خطیب مقرر کئے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر جماعت الدعوۃ کی جن مساجد کو محکمہ اوقاف کے حوالے کیا گیا ہے، ان میں اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ مرکز میں واقع مسجد قبا بھی شامل ہے۔ مسجد قبا کے خطیب مولانا یاسین کو ہٹاکر مولانا عبدالحفیظ کو مقرر کیا گیا ہے۔ جبکہ مسجد کے باہر یہ لکھ کر لگا دیا گیا ہے کہ ’’صرف نماز کے اوقات میں نمازی اس مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں‘‘۔ ذرائع کے مطابق مسجد قبا میں جماعت الدعوۃ کے دفاتر بھی واقع تھے۔ لہٰذا اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مسجد سے ملحق دفاتر بھی جماعت الدعوۃ کی سرگرمیوں کے لئے استعمال نہ ہوسکیں۔
ذرائع کے مطابق فلاح انسانیت فائونڈیشن کے زیر انتظام چلنے والے اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی ایک بڑی تعداد پر پہلے ہی سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقرر ہیں۔ جو اسپتال اور ڈسپنسریاں بچ گئی تھیں، ان کے خلاف اب کریک ڈائون شروع کردیا گیا ہے اور ایک ایک کرکے ان اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کوکنٹرول میں لیا جارہا ہے۔ ان میں راولپنڈی میں واقع فلاح انسانیت فائونڈیشن کی دو ڈسپنسریاں اور ایک اسپتال شامل ہے۔ اسی طرح ضلعی انتظامیہ نے اڈیالہ روڈ پر قائم ابوبکر اسپتال بھی سیل کر دیا۔ سیف اللہ لودھی روڈ راولپنڈی میں قائم جماعت الدعوۃ کا مرکز القدس اور اس میں قائم ڈسپنسری بھی سرکاری تحویل میں لی جاچکی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سب سے سنگین معاملہ اسکولوں کے حوالے سے ہے۔ ملک بھر میں جماعت الدعوۃ یا فلاح انسانیت فائونڈیشن کے زیر انتظام ساڑھے تین سو سے زائد اسکول چلائے جارہے ہیں۔ ان میں سے متعدد اسکولوں میں طلبا کی تعداد بارہ سو سے تیرہ سو ہے۔ جبکہ تین سے چار سو طلبا رکھنے والے اسکول بھی ہیں۔ ہر ایک اسکول میں اوسطاً طلبا کی تعداد چار سو بھی رکھی جائے تو کل تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب بنتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسے میں جب نویں اور دسویں کے امتحانات ہونے والے ہیں، ان تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے طلبا کا سال ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ یہ واضح نہیں کہ سرکاری تحویل میں لئے جانے کے بعد ان اسکولوں کو حکومت کتنے دنوں بعد کھولتی ہے۔ اسی طرح فلاح انسانیت فائونڈیشن کے تحت ملک بھر میں تین سو سے زائد مدارس بھی چل رہے ہیں۔ تاہم بڑے مدارس اور جامعات کی تعداد 70 سے 80 کے قریب ہے۔ جہاں درس نظامی پڑھایا جاتا ہے۔
حکومت کی جانب سے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد سے اب تک ان کے کتنے رضاکار اور ذمہ داران گرفتار کئے جا چکے ہیں؟ فی الحال اس حوالے سے سرکاری اعدادو شمار جاری نہیں کئے گئے۔ اور نہ ہی جماعت الدعوۃ کے پاس فوری طور پر ان گرفتار شدگان کے مکمل اعداد و شمار ہیں۔ جماعت الدعوۃ کے اندرونی ذرائع کے مطابق بدھ کا سارا دن انہیں پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں سے اپنے ذمہ داران کی گرفتاریوں اور ان کے گھروں پر چھاپوں کی شکایات کے ٹیلی فون موصول ہوتے رہے۔ تنظیم کی جانب سے ان گرفتار شدگان کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں فوری طور پر کوئی درست فیگر نہیں دیا جاسکتا۔ ذرائع کے بقول ان گرفتاریوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ جن میں علاقائی اور ضلعی سطح کے ذمہ داران شامل ہیں۔ زیادہ گرفتاریاں جنوبی پنجاب سے ہوئی ہیں۔ گرفتار شدگان کی قانونی مدد کے لئے وکلا پینل تشکیل دیا جاچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ انتظامیہ کی طرف سے فی الحال حافظ سعید اور دیگر مرکزی قائدین کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ لیکن مرکزی قیادت سمجھتی ہے کہ پہلے مرحلے میں نچلی سطح کے ذمہ داران کو گرفتار کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں مرکزی قیادت کو حراست میں لیا جانا خارج از امکان نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مرکزی قیادت کو نظر بند کردیا جائے، جیسا کہ ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ جماعت الدعوۃ کے سربراہ سے قریب ایک ذمہ دار کے بقول حافظ صاحب اور دیگر مرکزی قائدین کے لئے یہ کریک ڈائون کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے جس طرح ایکشن لیا جارہا ہے، وہ حیران کن ہے۔ حافظ سعید کے خیالات بیان کرتے ہوئے ذمہ دار کا کہنا تھا ’’حافظ صاحب بخوبی سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان پر عالمی دبائو ہے، اس لئے وہ مجبور ہے۔ ہم نے ملک کے لئے پہلے بھی ہر طرح کی قربانیاں دیں اور آئندہ بھی دیں گے۔ جبکہ تنظیم پر پابندی کے خلاف ہمیشہ کی طرح عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ لیکن جس طرح جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن سے منسلک لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں، خواتین کو ہراساں کیا جارہا ہے اور گرفتار شدگان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے جارہے ہیں، اس پر حافظ صاحب کو بہت دکھ ہے۔ ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسی تنظیم جس نے ہمیشہ قانون کی پابندی کی اور پاکستان میں اپنی توجہ رفاہی کاموں پر رکھی، کبھی ایک پتہ بھی نہیں توڑا۔ اور حکومتی فیصلے کے حوالے سے ہر طرح کے تعاون کے لئے بھی تیار ہیں۔ اس کے باوجود ان کے لوگوں کو کیوں ہراساں اور گرفتار کرکے دہشت گردی کے مقدمے قائم کئے جارہے ہیں‘‘۔ ذمہ دار کا مزید کہنا تھا کہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کے اکائونٹس تو گزشتہ برس سے منجمد ہیں۔ اسی طرح بڑی تعداد میں تنظیم کے اثاثے بھی پہلے ہی حکومت نے کنٹرول میں لے لئے تھے۔ نئی چیز علاقائی سطح پر گرفتاریاں اور ان کے لوگوں کو ہراساں کرنا ہے۔ اس صورتحال میں جن لوگوں نے اپنی ساری زندگیاں تنظیم کے لئے وقف کردی تھیں، ظاہر ہے کہ وہ اب مرکزی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اور تنظیم انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی عارضی نہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ سارا ایکشن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مطمئن کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے اپنے گزشتہ اجلاس میں اگرچہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں برقرار رکھا اور کہا ہے کہ وہ اپنے مئی جون کے اجلاس میں اس بات کا جائزہ لے گی کہ دہشت گردوں کی مالی مدد اور منی لانڈرنگ روکنے کے لئے پاکستان نے مزید کتنے موثر اقدامات کئے۔ اگر ایف اے ٹی ایف پاکستانی اقدامات سے مطمئن ہوگئی تو پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں کردیا جائے گا۔ بصورت دیگر بلیک لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے۔ لہٰذا مئی جون تک ہر صورت پاکستان نے عملی طور پر ثابت کرنا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کی مالی مدد اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی علاقائی تنظیم ’’ایشیا پیسفک گروپ‘‘ کا وفد رواں ماہ کی 25 تاریخ کو پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ یہ گروپ دہشت گردوں کی مالی مدد اور منی لانڈرنگ کے خلاف اسلام آباد کے موثر اقدامات کا جائزہ لے گا اور پھر اس کی رپورٹ اے ایف ٹی ایف کو پیش کرے گا۔ بعد ازاں ایف اے ٹی ایف اپنے مئی جون کے اجلاس میں اس رپورٹ کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گی۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی اقدامات سے مطمئن ہوکر اگر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کر بھی دیا تو سہ ماہی بنیادوں پر ہر تین ماہ بعد چیک کرے گی کہ پاکستان نے یہ اقدامات دکھاوے کے طور پر تو نہیں کئے۔ ایف اے ٹی ایف کی نگرانی کا سلسلہ کافی عرصے تک چلے گا۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی مختصر عرصے کے لئے ہو۔
٭٭٭٭٭
Next Post