نمائندہ امت
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے بعد مودی حکومت حریت کانفرنس پر بھی پابندی عائد کرنے کی خواہش مند ہے۔ تاکہ حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے اور اس کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے کشمیریوں کی آواز کو دبایا جا سکے۔ تاہم اس سلسلے میں اسے شدید ترین عوامی رد عمل کے علاوہ خود اپنے ملک اور عالمی سطح پر بھی سیاسی و قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یہ فیصلہ کرنے میں شش و پنج کا شکار ہے۔ دوسری جانب کشمیری عوام اور ان کے حریت پسند رہنمائوں پر بھارتی ظلم و ستم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جماعت اسلامی پر پابندی کے بعد اس کی قیادت بدستور مختلف تھانوں اور جیلوں میں پابند سلاسل ہے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک اور جماعت اسلامی کے مرکزی ترجمان زاہد علی ایڈووکیٹ کو جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے کالے قانون کے تحت محمد یاسین ملک کو تھانہ کوٹھی باغ سے، اور جماعت اسلامی کے رہنما زاہد علی ایڈووکیٹ کو تھانہ گاندر بل سے غیر معینہ مدت کے لئے کوٹ بھلوال جیل جموں میں بھیج دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی بدنام زمانہ جیل ہے، جس میں چند سال قبل ایک پاکستانی قیدی کو بہیمانہ تشدد کر کے دیگر قیدیوں نے قتل کر دیا تھا۔ پوری مقبوضہ وادی میں مختلف مقامات پر انڈین فورسز کے چھاپوں اور جانچ پڑتال کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ روز شوپیاں اور بانڈی پورہ میں آپریشنز کئے گئے، جس کے دوران ایک کشمیری نوجوان شہید ہوگیا۔ بانڈی پورہ میں سملر نامی گاؤں میں مخبری کی اطلاع پر چھاپہ مارا گیا اور تلاشی لی گئی۔ لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ البتہ سیب کے ایک باغ سے حریت پسندوں کے زیر استعمال کچھ سامان اور لٹریچر ملنے کا بھارتی قابض فورسز نے دعوٰی کیا ہے۔
پلوامہ میں بھارتی فوجی کانوائے پر فدائی حملے کے بعد جموں سری نگر شاہراہ پر سفر کرنے والوں کی مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنے والے تمام مسافروں کے لئے یہ سفر وبال جان بن گیا ہے۔ مختلف مقامات پر ناکے اور جگہ جگہ تلاشی، پوچھ گچھ سے تمام مسافر خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ اگر کوئی مسافر منت سماجت کے لئے زبان کھولے تو اسے دھمکیوں اور ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ احتجاج کی صورت میں بھی لاٹھیوں اور بندوق کے بٹوں سے سیکورٹی فورسز کے اہلکار اپنا غصہ اور تناؤ ان مظلوم مسافروں پر اتارتے ہیں۔ ان مسافروں کے تمام سامان کی بھی باریک بینی سے تلاشی لی جاتی ہے۔ عام افراد اپنی عزت بچانے کے لئے سب کچھ خاموشی سے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ نجی گاڑیوں کو بھی فوجی کانوائے یا سیکورٹی فورسز کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی کے دوران شاہراہ سے ہٹ کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ان میں موجود مسافروں کو بھی گاڑیوں سے باہر نکل کر کھڑا ہونے کا حکم شاہی سنایا جاتا ہے، جسے ماننا کشمیری عوام کی مجبوری ہے۔ مودی حکومت حق خود ارادیت کے لئے سرگرم کشمیری عوام کو طاقت سے کچلنے کے مذموم ارادے پر عمل پیرا ہے۔ اسی سلسلے کو مزید تقویت دینے کے لئے مرکزی وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے مقبوضہ وادی کے بعض علاقوں کے ایک روزہ دورے کا پروگرام بنایا اور سیکورٹی اہلکاروں و افسران سے ملاقات کر کے انہیں آشیر باد دی۔
حریت رہنمائوں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے آج جمعہ کو پوری وادی میں پُرامن احتجاج کی اپیل کی ہے۔ سید علی گیلانی اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔ پیرانہ سالی کے باعث ان کی صحت ٹھیک نہیں، لیکن نوجوانوں سے زیادہ مستحکم عزم رکھنے والے سید علی گیلانی نے کشمیری عوام کو اپنے حق خود ارادیت کے لئے ڈٹے رہنے کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 35 اے میں تبدیلی کی کوشش اور جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف پرامن احتجاج میں بھرپور شرکت کر کے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ذیلی ادارے کی سربراہ مشیل باچلے نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں اور اقلیتوں، خصوصاً مسلمان آبادی پر ہونے والے مظالم پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مشیل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ظلم کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔ جنیوا میں اس حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے UNHCR کی کمشنر مشل باچلے (MICHELLE BACHELET) نے کہا کہ انڈین کشمیر میں تمام اقلیتوں خاص طور پر مسلم آبادی پر ظلم و تشدد اور ناروا سلوک کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جو انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔
جماعت اسلامی کی مرکزی اور ضلعی سطح کی تمام قیادت پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے جماعت پر پابندی کا فیصلہ ابھی تک عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکا۔ ذرائع کے مطابق مودی حکومت حریت کانفرنس پر بھی پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اسے مختلف محاذوں پر شدید ردعمل کا خوف ہے، جس کے سبب وہ یہ فیصلہ کرنے میں شش و پنج کا شکار ہے۔ کشمیری عوام کے شدید ردعمل کے ساتھ ساتھ اسے دیگر بھارتی سیاسی جماعتوں سے بھی تعاون کی بہت کم امید ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنا بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہوگا۔ دوسری جانب اسے عالمی سطح پر بھی شدید ردعمل اور سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اقوام متحدہ میں کشمیری عوام کے جو حقوق تسلیم کئے گئے ہیں، کشمیریوں کی آواز حریت کانفرنس پر پابندی کا احمقانہ فیصلہ اس کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہوگا۔ جسے اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ یہی خوف مودی حکومت کو دامن گیر ہے، جس کی وجہ سے وہ اب تک یہ فیصلہ کرنے سے گریزاں ہے۔
٭٭٭٭٭