محمد قاسم
باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ کابل میں حزب وحدت کے بانی رہنما عبدالعلی مزاری کی برسی کی تقریب میں حملے کا اصل ہدف افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی تھے۔ تقریب میں انتہائی ہائی پروفائل شخصیات کی موجودگی کے باوجود راکٹ حملے نے دارالحکومت کی سیکورٹی کا پول کھول دیا ہے۔ اس حملے کے بعد نہ صرف کابل کے رہائشیوں، بلکہ غیر ملکی سفارتی عملے میں بھی خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ گزشتہ روز کابل میں حزب وحدت کے بانی رہنما عبدالعلی مزاری کی برسی کی تقریب میں تقریباً 8 راکٹ حملے ہوئے، جس میں 11 افراد ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہوگئے۔ کابل میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ برسی کی تقریب پر راکٹ داغے گئے تھے، جو جلسہ گاہ کے وسط میں گرے۔ واضح رہے کہ حزب وحدت کے بانی رہنما عبدالعلی مزاری کی چوبیسویں برسی پر کابل میں برچی مصلی کے مقام پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس سے سابق صدر حامد کرزئی، افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، صدارتی امیدوار حنیف اتمر، وزیر خارجہ اور جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ صلاح الدین ربانی، حزب وحدت محقق گروپ کے سربراہ استاد محقق سمیت شمالی اتحاد اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کرنا تھا۔ جس وقت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خطاب کیلئے ڈائس پر آئے تو نامعلوم مقام سے تقریباً آٹھ راکٹ فائر کئے گئے، جو جلسہ گاہ کے وسط میں گرے۔ دھماکوں سے بھگدڑ مچ گئی اور کئی افراد پیروں تلے کچلے گئے۔ حملے میں گیارہ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ابتدا میں کابل حکومت نے اعلان کیا کہ جلسہ گاہ پر خودکش حملہ ہوا ہے۔ تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ راکٹ داغے گئے ہیں۔ دن دیہاڑے راکٹ حملوں کے بعد دارالحکومت کی سیکورٹی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کابل حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ برسی کی تقریب پر حملہ طالبان نے ایک گھر سے کیا ہے اور ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تاہم افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان، جلسوں پر حملے نہیں کرتے اور نہ ہی انہوں نے یہ حملہ کیا ہے۔ حکومت عوام کو سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے اور اپنی ناکامی چھپانے کیلئے طالبان کو حملہ کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ دوسری جانب داعش نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ برسی کی تقریب میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے، جو ملک کے مختلف علاقوں سے آئی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ داعش کی جانب سے کابل میں پہلے بھی اہل تشیع کی مجالس اور مراکز پر حملے ہوتے رہے ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ گزشتہ روز راکٹ حملوں سے کابل کے رہائشیوں اور غیر ملکی سفارتی عملے میں بھی خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ایسی تقریب جس میں انتہائی ہائی پروفائل شخصیات موجود تھیں، پر حملے نے اشرف غنی حکومت کی جانب سے دارالحکومت کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا اصل ہدف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامدکرزئی تھے۔ نائب صدارتی امیدوار یونس قانونی کے مطابق وہ اسٹیج پر موجود تھے، جب استاد محقق نے اپنی تقریر ختم کی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خطاب کرنے کیلئے ڈائس پر آئے تو نامعلوم مقام سے داغے گئے کئی راکٹ اسٹیج سے کچھ دور آکر گرے، جس کی وجہ سے تمام سیاسی قیادت بچ گئی تاہم اسٹیج کے قریب لوگ زد میں آگئے۔ سیاسی رہنماؤںکو پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز نے وہاں سے بحفاظت نکالا۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ راکٹ حملے کے بعد تمام سیاسی رہنما اسٹیج کی پچھلی طرف سے بھاگ گئے تھے۔ جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ جانے سے کئی افراد پاؤں تلے کچلے گئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ یونس قانونی کے مطابق حملے کی تحقیقات کرائی جائیں۔ ضروری نہیں کہ ہر حملے میں طالبان یا داعش ملوث ہو۔ حکومت بھی اپوزیشن کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جن رہنماؤں نے برسی میں شرکت کی، ان میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور صلاح الدین ربانی کے علاوہ دیگر تمام رہنماؤں نے حال ہی میں طالبان کے ساتھ ماسکو میں منعقدہ مذاکرات میں شرکت کی تھی اور وہ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں بھی شریک ہوں گے۔ یہ رہنما طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ یاد دہانی کے باجود حکومت سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی اور اب طالبان پر الزام عائد کررہی ہے۔
ادھر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے افغانستان کے مجاہد حکمران احمد شاہ ابدالی کو ظالم قرار دینے پر ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور لسانی کشیدگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران کنڑ میں اشرف غنی نے عمائدین سے خطاب میں کہا تھا کہ ان (اشرف غنی) کے علاوہ احمد شاہ بابا سے لیے کر حامد کرزئی تک سب نے قدرت (حکومت) تک پہنچنے کیلئے لوگوں پر ظلم کیا اور عوام کیلئے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ وہ (اشرف غنی) واحد رہنما ہیں، جن کو لوگوں نے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا ہے۔ افغان صدر کی اس تقریر کے بعد پختونوں نے اشرف غنی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معافی مانگیں۔ کیونکہ وہ احمد شاہ بابا کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شدید عوامی ردعمل کے بعد ملک میں لسانی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ شمالی افغانستان کے ہزارہ، تاجک اور ازبک عوام، ڈاکٹر اشرف غنی کے خطاب کو لے کر پختونوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جبکہ پختونوں کا کہنا ہے کہ اشرف غنی ووٹ سے نہیں، بلکہ جان کیری کی وجہ سے اقتدار میں پہنچے ہیں۔ پختونوں کا کہنا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے پختونوں کی حکومت کو افغانستان سے ہندوستان تک پھیلایا تھا اور پانی پت کے مقام پر مرہٹوں کو شکست دی، جس کے بعد ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ ادھر سابق صدر حامد کرزئی نے بھی اشرف غنی کے خطاب کو افغان تاریخ سے بے خبری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اشرف غنی کو افغان تاریخ پڑھنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭