امت رپورٹ
کراچی میں ایک بار پھر پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک ماہ کے دوران 6 اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ پولیس تاحال کسی کارروائی میں ملوث ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ کالعدم لشکر جھنگوی اور ایم کیو ایم لندن کے دہشت گرد ان تازہ کارروائیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے متحدہ لندن 187 دہشت گردوں کے خلاف چھان بین شروع کر دی ہے۔ جو 1992ء کے آپریشن کے علاوہ بعد میں بھی متحدہ کے خلاف کارروائی کرنے والے اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھے۔ دوسری جانب کالعدم لشکر جھنگوی کے علاقائی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو اورنگی ٹائون، پاک کالونی، ہجرت کالونی اور سولجر بازار کے علاقوں میں قتل کیا گیا۔ واقعات کے دوران اہلکار ڈیوٹی پر تھے اور انٹیلی جنس پارٹیوں میں کام کر رہے تھے۔ ان کو باقاعدہ ریکی کر کے نائن ایم ایم پستول سے نشانہ بنایا گیا۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل میچوں کے ایونٹ کے بعد اہلکاروں کے قتل کی تحقیقات ازسرنو شروع کی جائیں گی۔
ہفتے کی شب اورنگی ٹائون سیکٹر ساڑھے گیارہ منصور نگر میں سبحانیہ بیکری کے قریب دہشت گردوں نے پولیس اہلکار 50 سالہ حبیب اللہ کو نائن ایم ایم پستول سے نشانہ بنایا۔ ایس ایس پی ویسٹ شوکت نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حبیب اللہ موٹر سائیکل پر دیگر اہلکاروں کے ساتھ گشت پر تھا کہ اس دوران ایک شخص نے اس کو روک کر کہا کہ قریب ہی گلی میں مسلح ملزمان لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ جونہی حبیب اللہ ساتھی اہلکاروں کے ساتھ اس گلی میں گیا، تو وہاں موجود مسلح افراد نے اس کو گولیاں ماریں اور فرار ہوگئے۔ مقتول انٹیلی جنس پارٹی کا حصہ تھا اور علاقے میں کالعدم تنظیموں اور متحدہ لندن کے دہشت گردوں کے حوالے سے خاصی معلومات رکھتا تھا۔ ساتھی اہلکاروں اور عینی شاہدین سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ اس سے چند روز قبل اورنگی ٹائون سیکٹر 13 میں اقبال مارکیٹ تھانے کی انٹیلی جنس ٹیم کے انچارج اے ایس آئی رضوان امجد مغل کو پاک کالونی میں نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعہ سے چند روز قبل سول لائن تھانے میں انٹیلی جنس ڈیوٹی پر مامور کانسٹیبل جہانگیر خان کو ہجرت کالونی میں اس دوران نشانہ بنایا گیا، جب علاقے میں کومبنگ آپریشن جاری تھا۔ وہاں انٹیلی جنس کی بنیاد پر رینجرز اور پولیس آپریشن کر رہی تھی کہ موٹر سائیکل پر سوار جہانگیر خان کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ گلستان جوہر تھانے کے اہلکار اعظم علی کو الہ دین پارک کے قریب گاڑی نے کچل کر ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ بھی حادثے کے بجائے قتل ہی لگتا ہے۔ اسی طرح سولجر بازار تھانے کی حدود میں ٹریفک پولیس اہلکار احتشام کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ مزار قائد ٹریفک سیکشن پر ڈیوٹی کرنے وردی میں جا رہا تھا۔ جبکہ پاک کالونی کے علاقے میں موٹر سائیکل گشت کے دوران فاروق نامی اہلکار کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بھی تھانے کی انٹیلی جنس پارٹی میں ڈیوٹی کر رہا تھا اور دہشت گردوں کے حوالے سے خاصی معلومات رکھتا تھا۔ مذکورہ اہلکاروں کے قتل کے واقعات کے بعد تھانوں میں مقدمات درج کئے گئے اور بعد ازاں کیس سی ٹی ڈی کو دے دیئے گئے۔ اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے آفیسر مظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ ستمبر 2013ء سے جاری آپریشن کے دوران متحدہ لندن اور کالعدم تنظیموں کے جو ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے تھے، ان میں شامل پولیس افسران اور اہلکاروں کو قتل کرنے والوں کی نئی فہرستیں تیار کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جیلوں میں موجود دہشت گردوں سے پوچھ گچھ کی جائے گی اور ضمانتوں پر رہا ہو کر روپوش ہونے والوں کے خلاف کریک ڈائون بھی شروع کیا جائے گا۔
پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں بڑھنے کے بعد جہاں وزیر اعلیٰ سندھ نے نوٹس لیا ہے، وہیں آئی جی سندھ نے بھی واقعات کے حوالے سے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ واضح رہے کہ کراچی آپریشن کو ساتواں سال شروع ہو چکا ہے۔ اس دوران ایم کیو ایم لندن کے بعض ایسے ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے، جو 1992ء آپریشن میں سرگرم افسران و اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہے تھے۔ تاہم شعبہ تفتیش اور آپریشن کے افسران ان کے خلاف ہلکے مقدمات بنا کر ان کو جیل بھجواتے رہے اور یوں یہ دہشت گرد بعد میں ضمانتوں پر رہا ہوتے رہے۔ ذرائع کے مطابق رینجرز نے متحدہ لندن کے 187 دہشت گردوں کی فہرست تیار کی تھی۔ جنہوں نے متحدہ کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے والے ڈی ایس پی سے سپاہی تک کے رینک کے اہلکاروں کو ٹارگٹ کیا تھا۔ ان میں بعض پکڑے گئے اور پھر ضمانتوں پر رہا ہو کر علاقوں میں آ چکے ہیں۔ جبکہ چند دہشت گرد جیلوں میں بیٹھ کر ٹارگٹ کلنگ کے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ بعض دہشت گرد تاحال روپوش ہیں۔ سیکورٹی اداروں نے اس فہرست کے حوالے سے دوبارہ چھان بین شروع کر دی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post