برطانیہ میں چاقو بردار طلبہ‘‘ کے لئے الگ اسکولز کا قیام

0

علی مسعود اعظمی
برطانوی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے ’’چاقو بردار طلبہ‘‘ کیلئے خصوصی اسکولز قائم کردیئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں 39 خصوصی درس گاہوں کا افتتاح کیا گیا ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق پولیس اور وزارت تعلیم کے حکام چھری باز بچوں سے پریشان ہوگئے تھے۔ چنانچہ گینگز بنا کر جھگڑا کرنے کے باعث ہر سال ہزاروں کی تعداد نکالے جانے والے بچوں کو عام طلبہ سے الگ کرکے اسپیشل ایجوکیشن دی جائے گی۔ ان اسپیشل اسکولز میں چاقو بردار طلبا و طالبات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی تربیت بھی جائے گی تاکہ ان میں اشتعال انگیزی کو ختم کیا جاسکے اور انہیں معاشرے کا کار آمد فرد بنایا جائے۔ برطانوی میڈیا نے بتایا ہے کہ ایک سرکلر کے تحت تمام پرائمری اورسیکنڈری اسکولز کی انتظامیہ کو پابند کردیا ہے کہ چھری باز طلبہ کے حوالے سے عدم برداشت کی پالیسی اپنائی جائے اور جو بھی طالب علم ادارے میں تیز دھار آلہ لے کر آئے اس کو فی الفور نکال دیا جائے۔ اس کے ماں باپ کو بھی متنبہ کیا جائے کہ بچے کی درست تربیت کریں ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ برطانوی سماجی ماہرین کے مطابق جب ایک پرائمری گریڈ کا طالب علم اپنے ساتھ چھری چاقو رکھے گا تو اس کا ذہن مجرمانہ منظر نامہ کا حامل ہوگا۔ برطانوی صحافی الائنر باس بی نے بتایا ہے کہ اسکول کے طلبا و طالبات میں چاقو رکھنے کا رجحان ان کو مجرمانہ ذہنیت کا حامل بنا رہا ہے۔ یہ رجحان ان کے اندر ساتھیوں اور استادوں کے منفی رویہ کے سبب بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ برطانوی جریدے گارجین کی رپورٹ کے مطابق لندن سے 117 میل کی دوری پر واقع ایک چھوٹا شہر ویسٹ مڈ لینڈ بطور خاص چھری باز طلبہ کی آماجگاہ ہے۔ یہاں 2018ء میں نو عمر چھری بازوں کے حملوں میں 700 افراد کو زخم آئے۔ خنجر زنی کی ان وارداتوں میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے 41 مجرموں کی عمریں 12 برس سے کم تھیں جو پرائمری گریڈز کے طلبہ تھے۔ باقی ماندہ کم سن مجرموں کی عمریں زیادہ سے زیادہ 16 برس تھیں۔ ویسٹ مڈ لینڈ میں رہائش پذیر 690 والدین نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بچوں کو دیگر بچوں نے چھری اور خنجر دکھا کر ڈرایا یا ان پرحملہ کیا۔ 2018ء میں ویسٹ مڈ لینڈ میں گرفتار کمسن چھری بازوں کی تعداد 800 رہی جن کے قبضے سے مختلف سائز کی چھریاں، خنجر اور چاقو بر آمد کئے گئے۔ واضح رہے کہ 2019ء کے ابتدائی دو ماہ میں برطانیہ میں نو عمر چھری بازوں کے حملوں میں 12 طلبا و طالبات ہلاک ہوئے۔ جبکہ زخمیوں کی تعداد 50 سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں لندن کے میئر صادق خان، برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے نمائندے اور پولیس کرائم کمشنر کی جانب سے طلبا و طالبات میں تشدد کے بڑھے ہوئے رجحان پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ان طلبہ کی ذہنیت مجرمانہ خطوط پر استوار ہورہی ہے جس کا منفی اثر معاشرے پرپڑ رہا ہے۔ اسکول کے بچے نہ صرف درس گاہوں میں گینگ بنا کر چاقوئوں سے مسلح ہوکر آرہے ہیں۔ بلکہ وہ اسکول کے باہر بھی ایک دوسرے پر حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ڈیلی مرر نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس لندن کی سڑکوں پر کمسن چھری بازوں کی کارروائیوں میں 35 ہلاکتیں ہوئیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد 200 سے اوپر تھی۔ برطانوی صحافی ڈیبی وائٹ کا کہنا ہے کہ نو عمر چھری باز معاشرے کا المیہ بن چکے ہیں۔ آن لائن جریدے گلوبل کنسٹرکشن ریویو نے بتایا ہے کہ 39 اسپیشل اسکولوں کی تعمیر اور ان کو فعال کرنے کیلئے 350ملین پائونڈ کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے۔ یہاں چھری باز بچوں کو خاص ماحول میں رکھ کر اس قسم کی عادات اور جرائم کی ذہنیت سے دور رکھنے پر کام کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں برطانوی حکومت نے اسپیشل اسکولوں میں تعلیم و تربیت کیلئے جدید نصاب اور خصوصی نصابی سرگرمیاں متعارف کرائی ہیں۔ برطانوی ایجوکیشن سیکریٹری دامیان ہنڈس نے انٹرویو میں بتایا ہے کہ خصوصی اسکولوں کی تعمیر کا مقصد انہیں عام اسکولوں سے اٹیچ کرنا ہے۔ کیونکہ عام اسکولوں میں چھری باز طلبہ کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس لئے ان تمام چھری باز بچوں کیلئے ایکسٹرا ایجوکیشن سپورٹ درکار ہے۔ اسپیشل یونٹس اسکولز میں طلبہ کو متشدد رویے تبدیل کرنے کیلئے خاص تعلیم د ی جائے گی۔ برطانوی جریدے ایوننگ اسٹینڈرڈ نے بتایا ہے کہ 2010ء سے اب تک لندن سمیت ملک بھر میں چاقوئوں، خنجروں اور چھریوں کے حملوں میں 48 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لندن میں تازہ واردات میں کمسن چھری بازوں نے سترہ سالہ لڑکی جوڈی چینسی کو قتل کیا۔ جبکہ مانچسٹر میں یوسف مکی نامی طالب علم کے قتل کے بعد مقامی پولیس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں 15 ملین پائونڈ کی رقم فی الفور جاری کی جائے تاکہ وہ چھری بازی کی وارداتوں سے بخوبی نمٹ سکے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More