مرزا عبدالقدوس
افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات میں قیدیوں کی حوالگی کیلئے فہرستوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ طالبان کی جانب سے اپنی فہرست میں ڈاکٹر عافیہ کا بھی نام دیا گیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے حکومت پاکستان کی درخواست پر ڈاکٹر عافیہ کا نام دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی جلد رہائی اور وطن واپسی کا امکان ہے۔ اس کی تصدیق گزشتہ روز ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کی ہے۔ جبکہ ممتاز دانشور اور تجزیہ نگار اوریا مقبول جان نے بھی کہا ہے کہ عافیہ صدیقی جلد رہا ہو کر پاکستان آرہی ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے گزشتہ روز اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی دو ماہ قبل جنوری میں ہو جانی تھی اور اس کیلئے تمام متعلقہ دستاویزات بھی مکمل کر لی گئی تھیں۔ لیکن پھر کسی وجہ سے رہا کرانے والوں نے ہی اپنے مقاصد کیلئے ان کی رہائی میں تاخیر کرائی۔ ڈاکٹر عافیہ رہائی کمیٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چند دنوں میں ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان آمد متوقع ہے۔ اوریا مقبول جان کے مطابق رہائی کمیٹی کے چیئرمین الطاف شکور کا اپنے ذرائع اور معلومات کی بنیاد پر دعویٰ ہے کہ عافیہ صدیقی 16 مارچ کو رہا ہو جائیں گی۔
امریکہ کی قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تقریباً سولہ برس قبل اپریل 2003ء میں سرکاری اہلکاروں نے اس وقت اغوا کرلیا تھا، جب وہ کراچی سے اسلام آباد بذریعہ ٹرین آرہی تھیں۔ یہ پرویز مشرف کا دور تھا اور امریکی اہلکار و جاسوس اسلام آباد کی سڑکوں پر دندناتے پھرتے تھے۔ پہلے سرکاری طور پر ڈاکٹر عافیہ اور ان کے بچوں کی گرفتاری کی تصدیق کی گئی۔ لیکن بعد میں ایسے کسی واقعے کی تردید کر دی گئی۔ مشرف دور میں جہاں دیگر ہزاروں افراد کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ وہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی امریکی حکام کے حوالے کر دی گئیں۔ بعد میں امریکی حکام نے عافیہ صدیقی کی افغانستان سے گرفتاری کا دعویٰ کر کے ان پر مقدمہ چلایا۔ گزشتہ سولہ برسوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی کیلئے ملک کی کئی جماعتوں نے کوشش کیں۔ مذہبی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ ’’ن‘‘، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے بھی انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن عملاً کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ذرائع کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جب مذاکرات آگے بڑھنے لگے تو فریقین نے اپنے اپنے قیدیوں کی رہائی کیلئے آپس میں فہرستوں کا تبادلہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے پاس امریکہ اور افغان حکومت کے حامی لگ بھگ ایک ہزار قیدی ہیں، جن کو یہ دونوں حکومتیں رہا کرانا چاہتی ہیں۔ ذرائع کے بقول افغان طالبان نے امریکی حکام کو اپنے قیدیوں کی جو فہرست دی ہے، وہ درجنوں میں ہے۔ ان میں سے بیشتر افراد کابل حکومت کی تحویل میں ہیں، جو اس معاملے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کے رہائی کیلئے زلمے خلیل زاد کے سامنے یہ شرط رکھی کہ طالبان اس معاملے میں براہ راست افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں، لیکن طالبان یہ شرط ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
اوریا مقبول جان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں تین مختلف ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ہو رہی ہے اور اس کیلئے تمام انتظامات تقریباً مکمل ہیں۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنی بہن کی جلد رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ یہ رہائی جنوری میں ہوجانی چاہئے تھی۔ ہر چیز مکمل تھی۔ لیکن اس رہائی میں شریک پاکستانی حکام نے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے دانستہ تاخیر کرائی۔ اوریا مقبول جان کے مطابق فوزیہ صدیقی کا اشارہ پی ٹی آئی کی جانب تھا۔ جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی ڈاکٹر عافیہ کی ممکنہ رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے رہائی میں تاخیر کی وجہ خود ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے رویے کو قرار دیا ہے۔ جنہوں نے کسی وجہ سے رہا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اب جلد از جلد رہائی ممکن ہے۔ ایک سوال پر اوریا مقبول جان نے بتایا کہ انہیں ڈاکٹر عافیہ کی فوری رہائی میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ لیکن چونکہ یہ صرف ایک قیدی کی رہائی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کی ڈیل ہے، جس میں ایک تیسرے فریق یعنی افغان حکومت کا بھی کردار ہے، تاہم وہ اس ڈیل میں شامل نہیں اور نہ طالبان براہ راست افغان حکومت سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس لئے اگر افغان حکومت نے مزاحمت کی تو شاید عافیہ صدیقی کی رہائی میں تاخیر بھی ہوجائے۔ لیکن اب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی مہینوں کی نہیں دنوں کی بات ہے۔
٭٭٭٭٭