نجم الحسن عارف
سودی کاروبار میں پورے علاقے کو جکڑنے والے چنیوٹ کے رہائشی اعجاز نے اپنی بیوی اور تین معصوم بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کرلی۔ پولیس ذرائع نے وجہ گھریلو ناچاقی بتائی ہے۔ تاہم فیملی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی ناچاقی گھر میں نہیں تھی۔ نہ ہی کوئی مالی پریشانی تھی۔ ہفتے کے روز مبینہ قاتل اعجاز نے نئی گاڑی خریدنے کیلئے جانا تھا۔ جس کے سلسلے میں وہ کسی سے بات بھی کرچکا تھا۔ فیملی کے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ جب سے اعجاز نے سود کا کاروبار شروع کیا تھا وہ خوشحال تو تھا مگر مطمئن نہیں تھا۔ بلکہ ڈپریشن کا شکار تھا۔ اور طویل عرصے سے اس کے پاؤں پُر اسرار بیماری کی زد میں آگئے تھے۔ پاؤں پر خود ہی کٹ سے لگ جاتے اور دوائی چھوڑتا تو پاؤں سے خون بہتا رہتا تھا۔
ضلع چنیوٹ کے گاؤں رائے چند المعروف غفورآباد میں ہفتہ کے روز جب علی الصبح مساجد سے اذان فجر کی آواز بلند ہورہی تھی تو اعجاز کے پورے گھرانے کا چراغ گل ہورہا تھا۔ سٹی تھانہ چنیوٹ میں اعجاز کے بھائی ممتاز کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ہفتہ کی صبح پونے 6 بجے کے قریب اعجاز کے گھر سے فائر کی آواز آئی۔ محلے کے لوگوں نے بھی یہ آواز سنی مگر خوف کے مارے گھروں سے نہیں نکلے۔ جبکہ اعجاز کا بھائی ممتاز اور بھانجا جوکہ گھر کے دوسرے کمرے میں سورہے تھے، فائرنگ کی آواز سن کر اپنے بھائی کے کمرے کی طرف آئے۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا جسے توڑا گیا تو دیکھا کہ اعجاز کے ہاتھ میں 30 بور کا پستول ہے جسے اس نے اپنے سینے بائیں جائب رکھ کر فائر کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ لڑکھڑا کر گرگیا اور موقع پر ہلاک ہوگیا۔ اس سے پہلے وہ اپنی 32 سالہ اہلیہ روبینہ پانچ سالہ بیٹا ابو بکر، 4 سالہ بیٹی مریم اور تین سالہ مرتضین کو قتل کرچکا تھا اور یہ لاشیں کمرے میں موجود تھیں۔ فیملی ذرائع کے مطابق اس خاندان کے لوگ رات تقریباً بارہ بجے سوتے تھے اور صبح پانچ بجے کے بعد یہ خونی واردات سامنے آگئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق یہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق گھریلو ناچاقی کا تنازعہ ہے۔ پہلے بھی کئی بار میاں بیوی کی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ حملے کے بعد لوگ بھی اسی طرح کی باتیں کرتے سنے گئے ہیں۔ تاہم ایک ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ اعجاز دوسری شادی کرنے کی کوشش میں تھا اس وجہ سے بھی اس کا اپنی بیوی سے جھگڑا رہتا تھا۔ لیکن فیملی کے لوگ اس امر کی تصدیق نہیں کرتے۔ اعجاز کے بھانجے علی حسنین نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا وہ ایک خوشحال زندگی گزارتے تھے۔ کوئی لڑائی جھگڑے والی بات نہیں تھی۔ ماموں نے چند دن قبل پرانی گاڑی فروخت کی تھی۔ اب وہ نئی گاڑی لینے والے تھے۔ آج انہوں نے نئی گاڑی لینے جانا تھا۔ جہاں تک ان کے سود کے کاروبار کا تعلق ہے وہ پچھلے پانچ برس سے چل رہا تھا۔ واضح رہے کہ پولیس کے مقامی تھانے سے بھی اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ اعجاز کا سود کا کاروبار تھا لیکن تھانے کی نفری کے مطابق سودی کاروبار کی وجہ سے اعجاز کے خلاف آج تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔ نہ کبھی کسی نے اس کیخلاف شکایت درج کی تھی۔ پولیس کی اطلاعات کے مطابق جب علی الصبح اعجاز نے کمرے میں فائرنگ کی تو اندازہ یہ ہے کہ اس کے بیوی بچے سو رہے تھے۔ اعجاز نے بڑے اطمینان سے ان کے سینے کے بائیں جانب پستول رکھ کر فائر کیا۔ پولیس کے مطابق چاروں کو سامنے سینے پر پستول رکھ کر گولی ماری گئی ہے۔ جبکہ اعجاز نے خود کو بھی سینے پر گولی ماری ہے۔
ایف آئی آر درج کرنے والے اعجاز کے بھائی ممتاز کے مطابق وہ اور اسلم گھر کے دوسرے کمرے میں سورہے تھے۔ خیال رہے کہ بالکل اس طرح کا ایک واقعہ چند روز قبل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 357 گ ب میں پیش آیا جہاں ماں اور اس کی تین بیٹیوں کی زہر خورانی کے نتیجے میں ایک ہی کمرے میں موت واقع ہوگئی تھی۔ جبکہ گھر کا سربراہ اپنے مہمان دوست کے ساتھ گھر کی بیٹھک میں سویا ہوا تھا۔ اس تازہ خونی واردات میں بھی مرنے والے سب لوگ کمرے میں تھے جبکہ ان کے دو قریبی افراد اسی گھر کے دوسرے کمرے میں سورہے تھے۔ پولیس نے ابھی تک کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا ہے نہ ہی ایف آئی آر میں کسی پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ بلکہ بیوی بچوں کو مارنے کے بعد اعجاز کا خودکشی کا مقدممہ درج کرایا گیا ہے۔ سفاک اعجاز کے بھانجے نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا دس روز قبل میرے ماموں اعجاز کی ساتھ بات ہوئی تو وہ کہہ رہے تھے کہ میں اس سودی کاروبار کو چھوڑنا چاہتا ہوں۔ ان کے بقول فیملی کو اس بارے میں معلوم نہیں کہ انہوں نے کس کس سے کتنا قرضہ لینا ہے نہ ہی ان کی موت کے بعد گھر سے کوئی ایسا کھاتہ ملا ہے۔ البتہ یہ علم میں ہے کہ اس کی ماہانہ آمدنی 70 سے 80 ہزار روپے تھی۔ جو گاؤں میں بہت اچھی آمدنی ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارے ماموں کا اپنی بیوی سے خرچے کا کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ اس کے بقول اہل خانہ رات بارہ بجے کے قریب سوتے تھے۔ اور اس وقت دونوں کے درمیان کوئی ان بن نہیں ہوئی تھی، جسے اس واقعے کی بنیاد بتایا جاسکے۔
عصر کے بعد اعجاز، اس کی مقتول بیوی روبینہ اور تین ننھے بچوں کی لاشیں پوسٹ ماٹم کے بعد گھر پہنچ گئی تھیں، جبکہ پانچوں کی نماز جنازہ مغرب میں ادا کی گئی۔ اس بہیمانہ خونی واردات پر پورے گاؤں میں فضا سوگوار ہے۔ مقتولہ بیوی روبینہ کے والد چک جھرہ سے چنیوٹ پہنچ گئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اعجاز اور روبینہ کی شادی ارینجڈ تھی اور یہ باہم رشتہ دار تھے۔ لیکن اچانک اس کا انجام خونی وارادت پر ہوا ہے۔ پولیس کے تفتیشی افسر غلام شبیر نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر کے لاہور کی فرانزک لیبارٹری کو بھیج دیئے گئے ہیں۔ غلام شبیر کے مطابق اب تک تو یہ بظاہر گھریلو ناچاقی کا واقعہ ہے اور گھر اُجاڑنے والا گھر کا سربراہ ہی قاتل ہے۔ فی الحال پولیس نے کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا ہے۔
٭٭٭٭٭