امت رپورٹ
نیوزی لینڈ کی النور اور لین ووڈ مساجد پر حملے کرنے والے عیسائی دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ کا اصل ہدف نیوزی لینڈ کی ہی ایک مسجد الہدیٰ تھی۔ یہ انکشاف ٹارنٹ نے حملے سے کچھ دیر قبل اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر کیا تھا ۔ سوشل میڈیا پر ٹارنٹ کے فیس بک اور ٹوئٹر اکائونٹ بلاک کردیئے گئے ہیں اور ان ویب سائٹس پر موجود تمام پوسٹیں بھی ڈیلیٹ کی جاچکی ہیں ۔ تاہم یہ تمام مواد کیوی اور آسٹریلوی انٹیلی جنس اداروں کے پاس موجود ہے، جو اس مواد کی روشنی میں بھی اپنی تحقیقات کو آگے بڑھارہے ہیں۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ کے مطابق نیوزی لینڈ کے ساحلی شہر ڈونیدن میں واقع مسجد الہدیٰ کی طرف جانے والی شاہراہ کو ایک روز پہلے بلاک کیا گیا تھا اور مسجد کی سیکورٹی کے لئے مسلح پولیس کے اہلکار تعینات ہیں۔ قبل ازیں مسجد الہدیٰ کی حفاظت کے لئے آرمڈ آفینڈرز اسکواڈ کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ علاقہ مکینوں کو اپنے گھروں کے اندر رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ مسجد کمیٹی کے ایک رکن عزیز الحسن کے بقول اس اطلاع کے بعد کہ عیسائی دہشت گرد نے پہلے مسجد الہدیٰ کو ٹارگٹ کرنے کا پلان بنایا تھا ، شہر کی مسلم کمیونٹی کو چوکس رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ جبکہ پولیس کے مشورے پر مسجد الہدیٰ بند کردی گئی ہے۔ اور اب مسجد انتظامیہ کی جانب سے محفوظ قرار دیئے جانے کے بعد ہی کھولی جائے گی۔
عیسائی دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ کا کہنا تھا کہ اوٹاگو مسلم ایسوسی ایشن کی ایک پوسٹ کے جواب میں اس کا اصل ہدف ڈونیدن کی مسجد الہدیٰ تھی۔ تاہم کرائسٹ چرچ کے دورے کے بعد اس نے اپنا فیصلہ بدلا ۔ پروپیگنڈے پر مبنی منشور میں ٹارنٹ نے لکھا ’’کرائسٹ چرچ کی مسجد النور اور لین ووڈ مسجد کے وزٹ اور ایک چرچ کی بے حرمتی دیکھنے کے بعد اس نے اپنا ٹارگٹ تبدیل کیا‘‘۔ ٹارنٹ کی رہائش بھی مسجد الہدیٰ کے قریب سمر ویلے اسٹریٹ ڈونیدن پر تھی۔ حملے میں استعمال ہونے والی کار اسی ایڈریس پر رجسٹرڈ تھی اور ڈونیڈن کے ایک شوروم سے خریدی گئی ۔ گزشتہ روز پولیس نے ٹارنٹ کی ڈونیدن میں واقع رہائش گاہ کی تلاشی بھی لی اور اب اسے سیل کردیا گیا ہے۔
ٹارنٹ نے منشور میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ کرائسٹ چرچ کی مساجد کو نشانہ بنانے کے بعد وہ ایش برٹن کی ایک مسجد پر بھی حملہ کرنے کا پلان رکھتا تھا۔ ایش برٹن کرائسٹ چرچ سے 85کلومیٹر دور ایک بڑا قصبہ ہے اور کنٹربری ریجن میں آتا ہے۔ اس مسجد کا نام ظاہر کئے بغیر ٹارنٹ کا کہنا تھا ’’جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا میں اپنے ایش برٹن کے ہدف تک بھی پہنچ پائوں گا ۔ اگر میں اس میں کامیاب ہوگیا تو یہ ایک بونس ہوگا‘‘۔
ادھر نیوزی لینڈ کے اخبار ’’دی لوکل‘‘کے مطابق وزیراعظم ہائوس نے برینٹن ٹارنٹ کے خود ساختہ منشور کی کاپی موصول ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ عیسائی دہشت گرد کے ارادوں پر مشتمل دستاویزات موصول ہونے کے باوجود مساجد پر حملوں کو کیوں نہیں روکا جاسکا۔ عیسائی دہشت گرد نے 74صفحات پر مشتمل یہ دستاویزات نیوزی لینڈ کے مختلف سیاستدانوں ، صحافیوں اور اہم شخصیات کو بھی ای میل کی تھیں۔ واضح رہے کہ اس خود ساختہ منشور میں برینٹن ٹارنٹ نے اپنے پلان کی تمام تر تفصیلات اور اسباب بیان کردیئے تھے ۔
نیوزی لینڈ کے مقامی اخبار سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیوی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن کے ترجمان کا دعویٰ تھا ’’ایک تو وزیراعظم ہائوس کو ٹارنٹ کے منشور کی کاپی حملے سے محض دس منٹ پہلے موصول ہوئی اور دوسرا یہ کہ دستاویزات میں حملے کے اساباب تو بیان کئے گئے تھے لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے ۔ لہٰذا ہمارے پاس ان حملوں کو روکنے کا موقع نہیں تھا‘‘۔ ترجمان کے بقول ای میل اکائونٹ وزیراعظم کا اسٹاف مینیج کرتا ہے۔ وزیراعظم ذاتی طور پر ای میلز وصول نہیں کرتیں۔ وزیراعظم ہائوس میں جو شخص ای میلز کو کھولتا ہے، وہ پروسیجر کے مطابق اسے پارلیمانی سیکورٹی کے حوالے کردیتا ہے۔ بعد ازاں سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ اسے پولیس کو ریفر کردیتا ہے۔
تاہم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعض صحافی وزیراعظم ہائوس کے اس جواز کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ کے سینئر صحافی ڈیوڈ فشر نے تو یہ سوال بھی اٹھادیا ہے کہ حملہ آور نے ممنوعہ لائسنس کے ہتھیار کیسے حاصل کئے؟ اور ملک میں موجود متعدد سیکورٹی ایجنسیاں دہشت گردی کے حملوں کو بروقت کیوں نہیں روک سکیں۔ڈیوڈ فشر کا کہنا ہے ’’عام گن لائسنس کے ساتھ اسلحہ خریدا جاسکتا ہے تاہم اضافی میگزین کی صلاحیت رکھنے والی سیمی آٹومیٹک رائفلز کے لئے اسپیشل کٹیگری کے گن لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ بات تعجب خیز ہے کہ آسٹریلیا سے تازہ تازہ نیوزی لینڈ پہنچنے والا برینٹن ٹارنٹ آسانی سے اسپیشل کٹیگری کا لائسنس حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ اس کا مطلب ہے کہ دہشت گردی کی اس کارروائی میں ٹارنٹ اکیلا نہیں اور یہ کہ ہتھیار ٹارنٹ کی آمد سے پہلے نیوزی لینڈ میں موجود افراد کو سپلائی کئے جاچکے تھے۔ پھر یہ کہ ٹارنٹ کے علاوہ بھی مزید دو افراد گرفتار کئے گئے ہیں۔ جن سے نا صرف بڑی تعداد میں ہتھیار برآمد ہوئے ہیں بلکہ وہ شہر بھر میں آئی ای ڈی (دھماکہ خیز مواد) نصب کرنے کا پلان بنارہے تھے۔ اس تناظر میں یہ ایک منظم کارروائی تھی اور اس میں گروپ کے دیگر لوگ بھی ملوث ہوسکتے ہیں‘‘۔
ادھر آسٹریلوی پولیس نے کہا ہے کہ دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ کی فیملی تفتیش میں مکمل تعاون کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں نیوسائوتھ ویلز اسٹیٹ کے پولیس کمشنر مک فولر نے بتایا کہ ان کے افسر مساجد پر حملے کی تحقیقات میں نیوزی لینڈ پولیس کی مدد کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی سائوتھ ویلز اسٹیٹ کے رہائشیوں کا تحفظ یقینی بنایا جارہا ہے ۔ عیسائی دہشت گرد اسی آسٹریلوی اسٹیٹ سے تعلق رکھتا تھا۔ مک فولر کے بقول ٹارنٹ کی فیملی سائوتھ ویلز کے قصبے گرافٹن میں رہائش پذیر ہے ۔ ٹارنٹ کا باپ کئی برس پہلے مرچکا ہے۔ وہ کینسر کا مریض تھا۔ اب گھر میں صرف ٹارنٹ کی والدہ اور ایک بہن مقیم ہے۔ پولیس کمشنر کے بقول میڈیا میں مساجد پر حملے کی خبریں دیکھنے کے بعد اس کی فیملی نے پولیس سے خود رابطہ کیا تھا۔ فیملی کا کہنا ہے کہ پچھلے چار برس میں ٹارنٹ نے بہت کم عرصہ آسٹریلیا میں گزارا۔ آسٹریلوی قائم مقام ڈپٹی کمشنر مائیکل ولنگ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں کہ ٹارنٹ کے رابطے کہیں آسٹریلیا کے انتہا پسندوں کے ساتھ تو نہیں تھے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post