ناچ گانے کے پروگرام پر عوام میں غم و غصہ

0

اقبال اعوان
پی ایس ایل فور کے فائنل میچ سے قبل ناچ گانے کے پروگرام پر عوام میں شدید ردعمل دیکھا گیا۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ میچ سے پہلے شہدائے نیوزی لینڈ کیلئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چاہئے تھا۔ دوسری جانب کراچی کے پریشان حال شہریوں نے پی ایس ایل فور کے اختتام پر سکھ کا سانس لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی اقدامات کے باعث اہم سڑکوں کی بندش اور آبادیوں کے راستے بند کرنے سے شہری 9 روز سے اذیت میں مبتلا تھے۔ اتوار کو بھی سیکورٹی کے سخت اقدامات رکھے گئے تھے۔ شاہراہ فیصل، ایئر پورٹ سے پی آئی ڈی سی (PIDC) چوک اور کارساز اسٹیڈیم تک وی وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے بار بار بند کی جاتی رہی۔ جبکہ اسٹیڈیم کے اطراف کی سڑکیں اور پارکنگ کے اطراف کی آبادیوں کے راستے اور مین سڑکیں میچ کے آغاز سے کئی گھنٹے قبل بند کر دی گئی تھیں۔ اس طرح وہاں کے مکین ذاتی مصروفیات اور تفریحی مقامات پر جانے کیلئے گھروں سے نہ نکل سکے۔ دوسری جانب فائنل دیکھنے آنے والے کرکٹ کے شوقین بھی پریشان نظر آئے کہ گرمی کے دوران انہیں جگہ جگہ پیدل چلایا گیا۔ کھانے پینے کی اشیا اور موبائل فون سے سیلفی کی سہولت نہ ملنے پر ان کا موڈ خراب ہوگیا۔
پی ایس ایل کے فائنل میچ کے آغاز سے قبل میوزیکل کنسرٹ ہوا، جس پر شہری ناراض تھے کہ سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد یہ پروگرام نہیں ہونا چاہئے تھا۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ جمعہ کو نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس طرح کے پروگرام نہیں ہونے چاہیئں۔ کاش شہید مسلمانوں کیلئے دعائے مغفرت کرا دی جاتی اور سادگی سے میچ کرا لیا جاتا۔ واضح رہے کہ کراچی میں رواں ماہ مارچ کے آغاز سے شہریوں کیلئے ٹریفک جام کی مصیبت سر پر آ گئی تھی کہ پی ایس ایل فور کے سارے میچ اور فائنل کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے تھے۔ تیاریوں کے دوران سیکورٹی کیلئے مختلف اداروں کی ریہرسل کے نام پر پروگرام ہوتے رہے اور 9 مارچ سے میچوں کا آغاز ہوا۔ کراچی میں پی ایس ایل میچ کے آغاز کے ساتھ جو صورتحال سامنے آئی، اس نے شہریوں کو پریشان کر دیا۔ شہر میں معمول کی سرگرمیاں اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ ایئر پورٹ اور پی آئی ڈی سی چوک پر واقع نجی ہوٹل، نیشنل اسٹیڈیم اور 5 مختلف جگہوں پر بنائی گئی پارکنگ کے اطراف سیکورٹی اقدامات اتنے سخت کئے گئے تھے کہ گویا کرفیو لگا دیا گیا ہو۔
کئی شہریوں نے فائنل میچ سے قبل گانے بجانے پر شدید ردعمل بھی دیا۔ صوفی خالد بھٹی کا کہنا تھا کہ گزشتہ جمعہ کو نیوزی لینڈ میں جس طرح مسلمان نمازیوں کو قتل کیا گیا، اس سانحہ پر دنیا بھر کے مسلمان غم زدہ ہیں۔ اب فائنل میچ سے قبل گانے بجانے کے پروگرام نے ان کے دل کو مزید دکھی کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سانحہ کے بعد نارمل میچ کرا لیا جاتا تو دنیا کے آگے اچھا پیغام جاتا۔ ڈالمیا کے رہائشی خداداد خان کا کہنا تھا کہ شہری 9 روز سے پی ایس ایل فور کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے یہ میچ کراچی سے ختم ہوئے ہیں۔ اس طرح کی تفریح شہریوں کو نہیں چاہیئے۔ سیکورٹی اقدامات اسٹیڈیم تک ہی ہوتے تو بہت اچھا ہوتا۔ ڈالمیا سے سڑک بند ہونے پر لوگ گلشن اقبال تک میلوں پیدل چل کر آ رہے ہیں۔ لوگوں کا روزگار بند کر دیا گیا۔ نور احمد کا کہنا تھا کہ اس کی موچی کی دکان سے روزانہ 5 سو روپے دیہاڑی بنتی تھی۔ میچ دیکھنے والوں کی پارکنگ بننے پر راستے بند ہوئے تو کام آدھے سے بھی کم رہ گیا۔ ۔ آبادی کے لوگ نہیں آتے ہیں۔ شیراز کا کہنا تھا کہ وہ گلشن اقبال میں اردو یونیورسٹی پارکنگ گرائونڈ کے عقب میں رہتا ہے۔ 9 روز سے راستے بند ہونے اور آتے جاتے چیکنگ کی وجہ سے پریشانی ہو رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ گانے بجانے کے پروگرام کر کے شہدا کے لواحقین کا غم مزید بڑھا دیا گیا ہے کہ ان کا غم بانٹنے کے بجائے خوب ہلہ گلہ کیا جاتا رہا۔ ہاشم کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل ایونٹ ٹریفک جام اور کاروباری نقصان کا سبب بنا ہے۔ محمد زمان کا کہنا تھا کہ آئندہ اس طرح کے پروگرام اسی دوران کریں جب شہر کی سڑکیں اچھی ہوں اور کاروباری حالات اچھے ہوں۔ کوئٹہ سے آنے والے شاہ زین اور اس کے ساتھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کے لباس میں آئے تھے اور پریشان ہو کر ادھر ادھر ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ نور علی نامی شہری کا کہنا تھا کہ اس کی رہائش مجید کالونی ڈالمیا کی ہے۔ میچز نے زندگی اجیرن کر دی تھی۔ اب شکر ہے کہ ایونٹ ختم ہوا ورنہ روزگار کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ فیروز کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کے شہدا کے لواحقین کے غم میں شریک ہونے کے بجائے گانے بجانے کر کے پیغام دیا گیا کہ ہم بے حس ہیں۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس کے سب انسپکٹر اعجاز کا کہنا تھا کہ گانے بجانے کا پروگرام نہیں ہونا چاہیئے۔ بحیثیت مسلمان ہم کو زیب نہیں دیتا کہ غلط کام دیکھیں اور نہ بولیں۔ سانحہ نیوزی لینڈ پر پوری دنیا کے مسلمان غم زدہ ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ عبدالباسط کا کہنا تھا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ ساری تعلیم 9 روز میں خراب ہوئی ہے۔ پیدل چل چل کر پریشان ہوں۔ چلو اچھا ہوا کہ ایونٹ ختم ہوا۔ محمد عادل کا کہنا تھا کہ ٹریفک جام اتنا زیادہ ہوتا رہا تھا کہ لوگ کئی گھنٹے تک سڑکوں پر پھنسے رہتے۔ رکشہ ڈرائیور اکمل کا کہنا تھا کہ شکر ہے کہ میچوں کا سلسلہ ختم ہوا۔ اب بچوں کی روزی کما سکے گا۔ ورنہ رکشہ کھڑا کر دیا تھا کہ نقصان ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More