امت رپورٹ/ اقبال اعوان
نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے نوجوان سید اریب احمد کے اہل خانہ نے کراچی میں تدفین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس کی میت پاکستان آنے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ اکلوتے بیٹے کی شہادت پر والدین غم سے نڈھال ہیں۔ خصوصاً اریب کی والدہ کی حالت بہت خراب ہے۔ خاندان کا کوئی فرد میت لینے کیلئے نیوزی لینڈ نہیں جا سکا۔ تاہم اہلخانہ کا کرائسٹ چرچ میں موجود اریب کے روم میٹ سے مسلسل رابطہ ہے۔ جس نے انہیں آگاہ کیا ہے کہ ابھی میت کی حوالگی کیلئے کاغذی کارروائی اور کیمیکل ایگزامز کے معاملات چل رہے ہیں۔ جن کی تکمیل کے بعد نیوزی لینڈ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے حکام میت کو پاکستان روانہ کریں گے۔
واضح رہے کہ 15 مارچ کو جمعہ کے روز نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں عیسائی دہشت گرد کی اندھادھند فائرنگ سے 50 نمازی شہید ہوئے تھے۔ جاں بحق ہونے والے 9 پاکستانیوں میں کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 14 میں واقع مکان نمبر 146 کا رہائشی نوجوان 27 سالہ سید اریب احمد ولد سید ایاز احمد بھی شامل ہے۔ اہل خانہ کے مطابق واقعہ کے بعد ابتدائی خبروں میں کہا گیا تھا کہ اریب لاپتہ ہے۔ بعد میں بتایا گیا کہ شدید زخمی ہے۔ لیکن بعدازاں پاکستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کے بارے میں باضابطہ اعلان کیا گیا تو ان میں سید اریب احمد کا نام بھی شامل تھا۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کراچی کے نوجوان ذیشان رضا اور اس کے والدین کی تدفین نیوزی لینڈ میں کی جائے گی۔ تاہم اریب کے ورثا نے درخواست کی تھی کہ میت کراچی بھیجی جائے۔ اگرچہ نیوزی لینڈ کے حکام نے اریب کے اہلخانہ کو کہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی تدفین کیلئے آجائیں۔ تاہم اریب کے والد ایاز احمد نے انکار کردیا کیونکہ شوگر اور بلڈ پریشر سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں اور طویل فضائی سفر نہیں کرسکتے۔ اہل خانہ کے مطابق اریب اپنے والدین کی اکلوتی نرینہ اولاد تھا۔ ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ لیکن اس کو تنہا بیرون ملک نہیں بھیجا جاسکتا۔ شہید کے خاندانی ذرائع کے مطابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، گورنر سندھ عمران اسمعیل، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی سمیت وفاق اور سندھ حکومت کے ذمہ داران نے اریب احمد کے گھر جاکر ان کے اہلخانہ سے تعزیت کی ہے اور انہیں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جبکہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے شہید کے غمزدہ خاندان سے تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ شہید سید اریب احمد کے ماموں زاد بھائی محمد وسیع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’کرائسٹ چرچ میں اریب احمد کے روم میٹ عزیر احمد کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے۔ وہ ہمیں تمام صورتحال سے مسلسل آگاہ کر رہا ہے۔ اریب کی میت پاکستان آنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے‘‘۔ محمد وسیع کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم تو ہو چکا، لیکن دستاویزات کی تیاری اور کیمیکل ایگزامز کی کارروائی جاری ہے۔ اس کے بعد میت پاکستانی سفارت خانے کے افسران کے حوالے کی جائے گی، جو پاکستان بھجوائیں گے۔ وسیع نے بتایا کہ اریب احمد شہید نیوزی لینڈ میں پی ڈبلیو سی نامی آڈٹ فرم میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ ڈیڑھ سال قبل نیوزی لینڈ گیا تھا اور وہاں بھی پابندی سے نماز ادا کرتا تھا۔ گزشتہ جمعہ کو وہ اپنے روم میٹ عزیر کے ساتھ النور مسجد گیا تھا۔ عزیر پارکنگ میں گاڑی لگا رہا تھا۔ اس دوران اریب احمد مسجد کے اندر چلا گیا اور عیسائی دہشت گرد کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔ وسیع نے بتایا کہ اکلوتے بیٹے کی شہادت کے بعد اس کے والدین کی حالت خراب ہے۔ والدہ شدت غم سے نڈھال ہیں اور کہتی ہیں کہ جلد میرے بیٹے کی میت لاؤ۔ جب تک شہید بیٹے کی پیشانی نہیں چوموں گی، چین نہیں آئے گا۔ اریب کی بہن بھی پہاڑ جیسے صدمے سے نڈھال ہے اور بھائی کی میت آنے کا انتظار کر رہی ہے۔ ان کے ضعیف والد دوسرے فلور سے بار بار گلی میں لگے ٹینٹ میں تعزیت کیلئے آنے والوں سے ملنے نہیں آسکتے اس لئے ٹینٹ ہٹا دیا گیا ہے۔ کیونکہ میت آنے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ وسیع کا کہنا تھا کہ ایاز احمد کو اکلوتے بیٹے کی شہادت نے بستر سے لگا دیا ہے۔ تاہم وہ فخر سے کہتے ہیں کہ ’’میرا بیٹا شہید ہوا ہے اور شہید زندہ ہوتے ہیں۔ حکومتی اور سیاسی رہنماؤں نے گھر آکر انہیں حوصلہ دیا ہے۔ گزشتہ روز درگاہ پاکپتن شریف کے گدی نشین بھی تعزیت کرنے آئے تھے۔ وفاقی اور صوبائی وزارت داخلہ و خارجہ کے افسران بھی اریب کے اہل خانہ سے رابطے میں ہیں۔
ادھر نیوزی لینڈ میں بدھ کے روز سے شہدا کی نماز جنازہ اور تدفین کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک 10 افراد کو سپرد خاک کیا جاچکا ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق جمعہ کو بقیہ 39 شہدا کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین عمل میں لائی جائے گی۔ واضح رہے کہ سانحہ میں 9 پاکستانی شہید ہوئے تھے، جن میں سے سید اریب احمد کی میت پاکستان لائی جائے گی۔ جبکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی النور مسجد کو بھی جمعہ کے روز نمازیوں کیلئے کھول دیا جائے گا۔ کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں عیسائی دہشت گرد کی فائرنگ سے شہید سید جہانداد علی نے 24 مارچ کو اپنے اہل خانہ کو لینے کیلئے پاکستان آنا تھا۔
’’امت‘‘ کو کرائسٹ چرچ میں موجود پاکستانی کمیونٹی نے بتایا ہے کہ کرائسٹ چرچ میں شہدا کی نماز جنازہ اور تدفین کا عمل بدھ سے شروع ہوگیا تھا اور جمعرات تک تقریباً 10 افراد کو سپرد خاک کیا جاچکا ہے۔ جمعہ کے روز بقیہ افراد کی اجتماعی نماز جنازہ کے بعد تدفین کردی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کو اجتماعی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے نیوزی لینڈ کے مختلف شہروں کے علاوہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی مسلمان کرائسٹ چرچ پہنچ رہے ہیں۔ جمعہ کا دن نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کیلئے انتہائی جذباتی ہوگا۔ کیونکہ اس روز نہ صرف کئی شہدا کی اجتماعی نماز جنازہ اور تدفین ہوگی بلکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مسجد النور کو بھی نمازیوں کیلئے کھول دیا جائے گا۔ توقع ہے کہ مسجد النور میں بڑی تعداد میں مسلمان نماز جمعہ ادا کریں گے، جس کیلئے نیوزی لینڈ کے حکام نے سخت سیکورٹی انتظامات کئے ہیں۔ ذرائع کے بقول نیوزی لینڈ کے مقامی افراد کی بڑی تعداد بھی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے مسجد النور پہنچے گی اور نماز جنارہ کے موقع پر وہ علامتی طور پر مسلمانوں کی حفاظت کریں گے۔
کرائسٹ چرچ میں شہید ہونے والے سید جہانداد علی کا تعلق لیاقت آباد کراچی سے تھا۔ لیاقت آباد میں اسکالر اِن کوچنگ سسٹم کے سید یوسف کے مطابق سید جہانداد سیلف میڈ شخصیت تھے۔ وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ تین بھائیوں میں جہانداد علی سب سے بڑے تھے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے شفیق استاد بھی تھے اور ان کو زمانہ طالب علم سے لے کر عملی زندگی تک رہنمائی فراہم کرتے رہے تھے۔ انہوں نے 2006ء میں این ای ڈی یونیورسٹی سے کمپیوٹر اور انفارمیشن سسٹم میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی، جس کے بعد وہ مازک پاکستان سے منسلک ہوگئے تھے۔ بعدازاں وہ سعودی عرب چلے گئے، جہاں وہ جدہ کی کمپنی نیٹ وے میں 2012ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 2012ء میں وہ نیوزی لینڈ چلے گئے اور انٹجنجن کمپنی جوائن کرلی، یہ مشہور زمانہ مائیکرو سافٹ کی پارٹنر کمپنی ہے۔ اس کمپنی میں انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز سافٹ ویئر انجینئر اور ٹیکنیکل کنسلٹنٹ کی حیثیت سے شروع کیا اور پھر سینئر اے ایکس ڈویلپر کے عہدے تک پہنچ گئے تھے۔ مرحوم نے سوگواروں میں بیوہ، دو بیٹیاں، چار سالہ میشا، دو سالہ عائشہ اور چھ ماہ کا بیٹا محمد چھوڑا ہے۔ شہید کی بیوہ آمنہ جہانداد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میرے شوہر 24 مارچ کو پاکستان آرہے تھے اور 30 مارچ کو انہوں نے مجھے اور بچوں کو لیکر واپس نیوزی لینڈ جانا تھا۔ فیملی کے نیوزی لینڈ جانے کے ٹکٹ بھی ہوچکے تھے۔ وہ جنوری میں ہمارے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ اس موقع پر میں رک گئی تھی۔ پروگرام تھا کہ جہانداد دوبارہ آئیں گے اور ہمیں ساتھ لیکر نیوزی لینڈ جائیں گے‘‘۔ آمنہ کا کہنا تھا کہ ’’ہماری شادی کو تقریباً چھ سال ہونے کو ہیں۔ شادی کے بعد میرا زیادہ وقت نیوزی لینڈ میں گزرا تھا۔ جب میں پہلی مرتبہ جہانداد کے ساتھ نیوزی لینڈ جارہی تھی تو کچھ خوفزدہ تھی کہ نہ جانے وہاں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن مجھے کبھی کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہاں کے لوگ بہت محبت اور خیال رکھنے والے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جہانداد ایک ہیرا تھے، جن کیلئے ہر ایک کے دل میں محبت ہوتی ہے۔ وہ اپنے والدین اور بیوی بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ مجھے اندازہ نہیں کہ شفیق شوہر کی شہادت کے بعد میں مستقبل میں کیا کروں گی اور زندگی کیسے گزرے گئی۔ ابھی یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکی کہ نیوزی لینڈ میں رہوں گئیں یا واپس پاکستان چلی جائوں گی‘‘۔
سید جہانداد علی کے بردار نسبتی سید رضا علی کے مطابق کرائسٹ چرچ سے جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق جہانداد علی وضو کرکے مسجد کے ہال میں جارہے تھے کہ گولیوں کا نشانہ بنے اور موقع ہی پر زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ وہاں کی مسلمان کمیونٹی نے نیوزی لینڈ حکومت کی مدد سے جمعہ کو تدفین کے انتظامات مکمل کر رکھے ہیں۔ ہمارے خاندان کے کئی افراد بھی تدفین میں شرکت کیلئے نیوزی لینڈ پہنچ گئے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سید جہانداد علی ماہر سافٹ ویئر انجینئر تھے۔ ان کی شہادت پر پورے دنیا میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے منسلک افراد نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مائیکرو سافٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے لنک ڈینٹ پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ہم نیوزی لینڈ میں ہلاک ہونے والے تمام افراد بشمول عطا ایلیان اور سید جہانداد علی کی جدائی پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے کیونکہ وہ ہمارے مائیکرو سافٹ ایم وی پی کا حصہ تھے۔ ہم متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انٹجنجن کمپنی کے چیف ایگزیکٹو صائمن برائٹ نے بھی لنک ڈینٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے قابل احترام ساتھی سید جہانداد علی مسجد النور کرائسٹ چرچ میں دہشت گرد حملے میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ میری تمام ہمددری سید جہانداد علی کے خاندان، اس کی اہلیہ آمنہ، بچوں اور ان کے ساتھی کارکنان کے ساتھ ہیں۔
٭٭٭٭٭
Next Post