حملے کے وقت سورئہ کہف کی تلاوت کررہا تھا

0

ندیم محمود
ضیاء الرحمن چترالی
مفتی محمد تقی عثمانی ممتاز دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث اور نائب رئیس ہیں۔ ان کا شمار عالم اسلام کے گنے چنے بڑے علما میں ہوتا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے ذیلی ادارے مجمع الفقہ الاسلامی کے رکن ہیں۔ 44 کتب کے مصنف اور اسلامی بینکاری کے موجد ہیں۔ وہ دو برس وفاقی شرعی عدالت اور بیس برس سپریم کورٹ میں فرائض سر انجام دیتے رہے۔ شریعت اپیلٹ بینچ کے چیف جسٹس اور پاکستان کے نائب چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔ ان کی گراں قدر دینی خدمات کی وجہ سے انہیں ’’شیخ الاسلام‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں دہشت گردوں نے مفتی تقی عثمانی صاحب پر حملہ کیا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی فیملی کو محفوظ رکھا۔ یوں عالم اسلام ایک بڑے نقصان سے بچ گیا۔ تاہم اس المناک واقعہ میں ان کے دو ساتھی شہید اور دو شدید زخمی ہوگئے۔ گزشتہ روز ’’امت‘‘ نے اس سارے واقعے کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی صاحب کا تفصیلی انٹرویو کیا، جو نذر قارئین ہے۔
٭٭٭
س: دہشت گردی کے حملے میں آپ کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں۔ کیا حملے کے وقت آپ کوئی دعا پڑھ رہے تھے؟
ج: بالکل، اللہ تعالیٰ نے مجھے گولیوں کی بارش کے باوجود اس طرح محفوظ رکھا کہ مجھے خراش تک نہ آئی۔ البتہ اپنے دو ساتھیوں کی شہادت اور دو ساتھیوں کے زخمی ہونے پر مجھے سخت صدمہ ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو میں دعا پڑھتا نہیں، مانگتا ہوں۔ دعا پڑھنی اور چیز ہوتی ہے اور مانگنی اور چیز ہے۔ دوران سفر دعا مانگنا میرا معمول ہے۔ عموماً سورۂ کہف میں رات کو ہی نفل میں پڑھ لیتا ہوں۔ روز ایک پورا پارہ پڑھنا میرے معمول میں شامل ہے۔ اگر سفر میں ہوں تو پھر راستے میں تلاوت کرکے پارہ ختم کرتا ہوں۔ جب حملہ ہوا تو میں سورۂ کہف کی تلاوت شروع کر رہا تھا۔ تلاوت شروع کرتے ہی فائرنگ اسٹارٹ ہوگئی۔ چند گولیاں میری کار کی ونڈ اسکرین پر آکر لگیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ شروع میں چلائی جانے والی گولیوں کی آواز مجھے تیز بارش کی بوندوں کی طرح سے محسوس ہوئی۔ میں یہی سمجھا کہ اچانک تیز بارش شروع ہوگئی ہے۔ لیکن جب گاڑی کی ٹوٹی ونڈ اسکرین پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ بارش نہیں بلکہ فائرنگ ہورہی ہے۔ پہلا خیال ہی ذہن میں یہی آیا کہ شاید کوئی دہشت گرد ہیں، جو ہمیں نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آور آگے پیچھے جارہے تھے اور ہوائی فائرنگ بھی کر رہے تھے۔
س: جیسا کہ خبروں میں آیا ہے کہ حملہ آور تین موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ کیا ایسا ہی تھا؟
ج: جی ہاں، تین موٹر سائیکلیں ہی تھیں اور ہر موٹر سائیکل پر دو، دو افراد سوار تھے۔ لیکن مجھے فوری طور پر حملہ آوروں کی تعداد کا اندازہ نہیں ہوسکا تھا ۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ حملے کے وقت میں سورۂ کہف کی تلاوت کر رہا تھا اور قرآن پاک میرے دونوں ہاتھوں میں تھا۔ میں تلاوت میں اس قدر محو تھا کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ ہم لوگ کہاں پہنچے ہیں۔ لہٰذا حملہ آوروں کی تعداد کی طرف بھی میرا دھیان نہیں گیا ۔ میں عام طور پر سفر کرتا ہوں تو تلاوت کر رہا ہوتا ہوں یا کسی اور کام میں مشغول ہوتا ہوں۔ لہٰذا عموماً مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ گاڑی کس مقام سے گزر رہی ہے۔ حملے والے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہم کس جگہ پر ہیں۔ ایک دم گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ ونڈ اسکرین کے بعد گولیاں لگنے سے میری گاڑی کا دائیں طرف کا شیشہ بھی ٹوٹا۔
س: گولیاں آپ کے کتنے قریب سے گزر رہی تھیں؟
ج: گاڑی میں پولیس گارڈ، ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں اپنی اہلیہ، پوتے اور پوتی کے ہمراہ بیک سیٹ پر بائیں دروازے کے ساتھ بیٹھا تھا۔ گولیاں مسلسل چل رہی تھیں۔ عقب سے آنے والی گولیاں ہمارے سروں کے انتہائی قریب سے ہوتے ہوئے سامنے کی سیٹوں کے پیچھے پیوست ہو رہی تھیں۔ اس دوران دائیں طرف سے آنے والی ایک گولی میرے ڈرائیور حبیب کے لگی۔ ڈرائیور نے مجھے کہا کہ آپ نیچے لیٹ جائیں۔ ظاہر ہے کہ گاڑی میں لیٹنے کی گنجائش نہیں تھی۔ لہٰذا میں کچھ آگے پیر کرکے نیم دراز ہوگیا۔ اس دوران تینوں اطراف سے گولیاں چلنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ تاہم ڈرائیور نے زخمی حالت میں گاڑی آگے بڑھادی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے حملہ آور اپنا کام کرکے چلے گئے۔ لیکن اتنے میں حبیب کی آواز آئی کہ وہ پلٹ کر آرہے ہیں۔ آپ کچھ اور نیچے ہوجائیں۔ اس اثنا میں حملہ آور واپس آچکے تھے اور انہوں نے فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔ اس بار انہوں نے دائیں، بائیں، سامنے اور عقب، چاروں اطراف سے گولیاں برسائیں۔ آپ کو ایک حیرت انگیز بات بتائوں۔ میں گاڑی میں بائیں دروازے کے ساتھ بیٹھا تھا۔ دہشت گردوں کی ایک گولی اسی دروازے کے آر پار ہوگئی۔ گولی لگنے کا مقام وہی تھا جہاں میری ٹانگ تھی۔ عقل تو یہی کہتی ہے کہ یہ گولی میری ٹانگ میں لگنی چاہئے تھی، کیونکہ گولی دروازے کے آر پار ہوگئی تھی۔ لیکن ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی ہے کہ یہ گولی کہاں چلی گئی؟ یہ معمہ شاید کبھی حل نہ ہو۔ میں اور میری فیملی گاڑی کی عقب سیٹ پر بیٹھی تھی۔ لہٰذا حملہ آور عقب سے زیادہ شدید فائرنگ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ گاڑی کا عقبی شیشہ چکنا چور ہوگیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم سے دہشت گردوں کا مقصد پورا نہیں ہو سکا۔ شیشہ ٹوٹنے کے بعد بھی عقب سے گولیاں آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ زیادہ تر گولیاں عقب سے آکر فرنٹ سیٹوں کے پچھلے حصوں میں لگتی رہیں۔ کچھ گولیاں گاڑی کی ڈکی کے اندر جاکر عقبی سیٹ کے راڈ میں پھنس گئیں۔ چند گولیاں عقبی شیشے کو سہارا دینے والی ربڑ میں بھی پیوست ہوئیں۔ لیکن مجھے یا میری فیملی کو ٹچ نہیں ہوئیں۔
س: اس وقت آپ کی اہلیہ، معصوم پوتے اور پوتی کی کیا کیفیت تھی؟
ج: ایک پوتا یمان پانچ برس اور پوتی دینا سات برس کی ہے۔ لہٰذا بچوں کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔ لیکن جب ڈرائیور اور گارڈ کو گولیاں لگیں تو پوتے یمان نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’ابا، میرے یہاں لگی ہے‘‘۔ اس وقت میں تھوڑا گھبرا گیا۔ ایک طرح سے مجھ پر قیامت گزر گئی۔ میں نے دعا کی کہ ’’یا اللہ میرے بچے کو بچالے‘‘۔ میں نے جلدی سے یمان کی قمیض کے بٹن کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گولیوں سے ٹوٹنے والے کار کے شیشے کی کرچیاں اسے لگی ہیں۔ شیشے کی کرچیاں میری اہلیہ کے بھی لگیں۔ ان کے دونوں ہاتھ زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کے وقت ان کے دونوں ہاتھوں میں بھی قرآن پاک تھا اور وہ بھی تلاوت کر رہی تھیں۔ میری طرح الحمدللہ میری اہلیہ کو بھی کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں تھی۔ دوران حملہ وہ سورۂ یٰسین کی آیت ’’و جعلنا من بین ایدیھم سدًّا و من خلفھم سدًّا…‘‘ پڑھ رہی تھیں۔ اس کا ترجمہ ہے کہ ’’ہم نے ان کے آگے پیچھے دیواریں کھڑی کر دی ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے‘‘۔
س: حملے کے وقت آپ کی دو گاڑیاں تھیں؟
ج: جی دو گاڑیاں تھیں۔ ہماری ہنڈا سوک آگے تھی، جس کی اگلی نشستوں پر ڈرائیور کے ساتھ پولیس گارڈ بیٹھا تھا۔ عقب سیٹ پر میں، میری اہلیہ اور میرے پوتا پوتی تھے۔ پچھلی گاڑی میں ایک ڈرائیور عامر اور ہمارا ذاتی محافظ صنوبر تھا۔ گولیاں لگنے سے ڈرائیور عامر شدید زخمی ہوا۔ اب بھی تشویشناک حالت میں ہے۔ جبکہ محافظ صنوبر شہید ہوگیا۔ یعنی حملے میں دو افراد شہید اور دو شدید زخمی ہوئے۔ آپ اندازہ کیجئے آٹھ افراد کا قافلہ تھا۔ ان میں سے مجھ سمیت فیملی کے چار افراد معجزانہ طور پر بچ گئے اور باقی چار کو گولیاں لگیں۔
س: ڈرائیور اور پولیس گارڈ کے کب اور کتنی گولیاں لگیں؟
ج: میرے ڈرائیور حبیب کے دونوں کاندھوں پر گولیاں لگیں۔ تیسری گولی کہنی میں لگی، جبکہ چوتھی گولی اس کی تھوڑی کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ ڈرائیور کے بازو اور ہاتھ خون میں لت پت تھے، لیکن وہ مسلسل گاڑی چلاتا رہا۔ ایک گولی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے پولیس گارڈ محمد فاروق کے سر میں لگی۔
س: ڈرائیور اور گارڈ کو پہلے ہی حملے میں گولیاں لگ چکی تھیں یا جب دہشت گرد پلٹ کر آئے تو ان کو گولیاں لگیں؟
ج: ڈرائیور نے مجھے خود بتایا کہ اسے گولیاں لگ چکی ہیں۔ یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ شروع میں ہونے والی فائرنگ سے وہ زخمی ہوا یا جب حملہ آور پلٹ کر آئے تھے تو وہ دوبارہ ہونے والی فائرنگ کی زد میں آیا۔ دراصل دہشت گرد ڈرائیور کے سر کو ٹارگٹ کرنا چاہ رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بچایا۔ اگر ڈرائیور کے سر میں بھی گولی لگ جاتی تو پھر معاملہ ختم تھا۔ کیونکہ اسی نے گاڑی اسپتال تک پہنچائی۔ دونوں کاندھے اور کہنی زخمی ہوجانے کے باوجود ڈرائیور نے بہت تیزی سے گاڑی بھگائی۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ ہم آگے نکل چکے ہیں اور حملہ آور پیچھے رہ گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ڈرائیور کے دونوں بازوئوں اور ہاتھوں سے خون بہہ رہا تھا۔ اور اسے گاڑی چلانے میں دقت محسوس ہورہی تھی۔ بایاں ہاتھ شل ہوچکا تھا اور اب وہ ایک ہاتھ سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس دوران اس نے مجھے کہا کہ حضرت، میرا ایک ہاتھ تو بالکل بیکار ہوگیا ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ تم گاڑی سائیڈ میں لگائو اور پچھلی سیٹ پر آجائو۔ میں خود گاڑی چلاکر اسپتال لے جاتا ہوں۔ لیکن حبیب نے انکار کردیا اور بولا ’’حضرت، یہ نہیں ہوسکتا۔ آپ کی جان خطرے میں ہے۔ دہشت گرد دو حملے کرچکے ہیں اور تیسرا حملہ بھی کرسکتے ہیں۔ لہٰذا میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔ خدا کے لئے آپ پیچھے ہی بیٹھے رہیں۔ میں خود ہی گاڑی چلاکر اسپتال لے جائوں گا‘‘۔ کچھ دیر بعد حبیب کا وہ ہاتھ بھی زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے شل ہونا شروع ہوچکا تھا، جس کی مدد سے وہ گاڑی چلا رہا تھا۔ چنانچہ اس نے محض اپنی انگلیوں کی پوروں کی مدد سے گاڑی ڈرائیو شروع کردی اور گاڑی کو لیاقت نیشنل اسپتال کے راستے پر ڈال دیا۔ میں چونکہ جمعہ پڑھانے مسجد بیت المکرم جارہا تھا اور نماز کا وقت ہونے والا تھا۔ میں نے مسجد والوں کو راستے میں ہی فون کرکے بتایا کہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے، لہٰذا جمعہ کی نماز پڑھانے نہیں آسکوں گا۔ کچھ دیر بعد ہم اسپتال پہنچ چکے تھے۔ فوری طور پر ایمرجنسی میں آئے۔ میں نے ایک اسٹریچر منگواکر اس پر پولیس گارڈ کو ڈالا۔ کیونکہ مجھے امید تھی کہ شاید وہ بچ گیا ہو۔ لیکن چونکہ گولی سر میں لگی تھی، لہٰذا بدقسمتی سے پولیس گارڈ نہیں بچ سکا۔ وہ اسپتال آنے سے پہلے راستے میں ہی شہید ہوچکا تھا۔ تین گولیاں لگنے اور شدید زخمی حالت میں گاڑی چلانے کے سبب ڈرائیور بھی اب نڈھال ہو رہا تھا۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ حبیب نے کتنی جرات کا مظاہرہ کیا۔ بڑا جیدار بچہ ہے۔ اسپتال کے عملے نے بڑی پھرتی دکھائی۔ زخمی ڈرائیور کو فوری طور پر ایمرجنسی میں پہنچا کر طبی امداد دینے کا عمل شروع کردیا۔ میں پہلے گارڈ کے اسٹریچر کی طرف گیا اور ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس کی کیا پوزیشن ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اب گارڈ دنیا میں نہیں رہا اور راستے میں دم توڑ چکا ہے۔ جبکہ ڈرائیور حبیب کے بارے میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کا آپریشن ہوگا، لیکن حالت خطرے سے باہر ہے تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اتنے میں اسپتال انتظامیہ کے سربراہ آگئے۔ میں نے انہیں کہا کہ جمعہ کا وقت ہے، نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے اسپتال کی مسجد میں لے گئے اور میں نے جمعہ کی نماز وہیں پڑھی۔ اس وقت خطبے کی اذان ہو رہی تھی۔ میں تقریباً ایک گھنٹے تک اسپتال میں رہا۔
س: اتنے طویل وقت تک دہشت گرد گولیاں برساتے رہے۔ پولیس کہیں نظر نہیں آئی؟
ج: جائے وقوعہ پر تو پولیس دکھائی نہیں دی۔ تاہم جب ہم اسپتال کی طرف جارہے تھے تو راستے میں ایکسپو سینٹر کے سامنے ایک پولیس موبائل ضرور دکھائی دی، جو پولیس اہلکاروں سے مکمل بھری ہوئی تھی۔ ڈرائیور گاڑی پولیس موبائل کے قریب لے کر گیا اور میں نے ان سے کہا کہ میری گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی ایک اہلکار گاڑی ڈرائیو کرکے ہم لوگوں کو اسپتال تک پہنچادے۔ لیکن پولیس اہلکاروں نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ خود ہی اسپتال پہنچ جائیں۔ میں نے سوچا کہ ان سے بحث کرنے میں مزید وقت ضائع ہوگا۔ اس وقت ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ ہم نے چلتے چلتے ہی بات کی تھی۔ ڈرائیور نے خود بھی ان سے یہ بات کہی تھی۔ لیکن جب پولیس اہلکار آمادہ نہیں ہوئے تو ہم نے خود ہی اسپتال کی
طرف گاڑی ڈال لی۔ خوش قسمتی سے زیادہ ٹریفک نہیں تھی اور ہم تقریباً دس منٹ میں اسپتال پہنچ گئے۔
س: سنا ہے کہ آپ کو دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ کب سے جاری تھا ؟
ج: حال ہی میں تو مجھے کسی قسم کی کوئی دھمکی نہیں ملی۔ لیکن دو ڈھائی برس پہلے ضرور دھمکیاں ملا کرتی تھیں۔ لیکن میں نے کبھی ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی اس سے انتظامیہ کو آگاہ کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ دھمکیاں دینے والے خود کو جن تنظیموں سے منسوب کیا کرتے تھے، میرے خیال میں ان سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ یعنی ایک طرح سے یہ اصلی نہیں جعلی دھمکیاں تھیں۔
س: کس نوعیت کی دھمکیاں ہوتی تھیں اور کیا فون پر دی جاتی تھیں؟
ج: زیادہ تر گمنام ہوتی تھیں۔ اور عموماً بذریعہ خط آتی تھیں۔ کبھی کسی خط میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اس کا تعلق داعش سے ہے اور لکھا جاتا کہ ’’میں داعش کا کمانڈر ہوں اور آپ نے جو موقف اختیار کیا ہے۔ ہم آپ کو چھوڑیں گے نہیں‘‘۔
س: کون سا موقف؟
ج: میں ہمیشہ سے ہی ملک کے اندر مسلح کارروائیوں اور خود کش حملوں کے خلاف رہا ہوں۔ خط میں میرے اسی موقف کی طرف اشارہ ہوتا تھا۔ کبھی کوئی خود کو داعش کا قرار دے کر دھمکی آمیز خط بھیجتا۔ کبھی بظاہر ٹی ٹی پی کی جانب سے اسی نوعیت کا دھمکی آمیز خط آجاتا تھا۔ اب پتہ نہیں یہ خط اصلی ہوتے تھے یا جعلی۔ کیونکہ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی نے ٹی ٹی پی کا ذمہ دار بن کر دھمکی آمیز خط بھیجا تو ٹی ٹی پی کی جانب سے تردیدی خط بھی آگیا کہ ان کی طرف سے اس قسم کا کوئی خط نہیں بھیجا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دھمکیوں کو میں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ایک آدھ بار لوکل نمبر سے فون بھی آیا کہ آپ کو چھوڑیں گے نہیں۔ جس پر میرا کہنا تھا کہ ’’اللہ مالک ہے‘‘۔ اگرچہ ملک میں مسلح کارروائیوں کے حوالے سے میرا موقف واضح ہے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا تھا کہ کوئی میرا دشمن نہیں اور دھمکیاں دینے والے جن تنظیموں سے خود کو منسوب قرار دیتے ہیں، وہ درست نہیں۔ اس وقت تو پاکستان میں داعش کا وجود بھی نہیں تھا۔ دلچسپ امر ہے کہ اس کے باوجود ایک بار خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ ’’میں داعش کا کمانڈر ہوں اور آپ کے قریب رہتا ہوں‘‘۔
س: لیکن پھر گورنر سندھ عمران اسماعیل نے یہ کیوں کہہ دیا کہ آپ کو اب بھی دھمکیاں مل رہی تھیں؟
ج: میرا خیال ہے کہ گورنر صاحب کو کوئی مغالطہ ہوا ہے۔ دراصل جب علما سے سیکورٹی واپس لی گئی تو اس وقت ہمارے وفاق المدارس کے کچھ نمائندے انتظامیہ کے مختلف لوگوں سے ملے اور انہیں کہا تھا کہ ہمارے بعض علما کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لہٰذا ان سے سیکورٹی واپس لینے کے بجائے انہیں سیکورٹی فراہم کی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ گورنر نے اسی تناظر میں بات کی ہو۔ لیکن میرے علم میں نہیں۔ حملے کے بعد خیریت پرسی کے لئے گورنر صاحب آئے تھے۔ لیکن اس سے پہلے تو میری کبھی ان کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی۔
س: آپ کے پاس کتنی سرکاری سیکورٹی تھی؟
ج: شروع میں تو میرے پاس کوئی سیکورٹی نہیں تھی۔ لیکن ایک ڈیڑھ برس پہلے مجھے صرف ایک سپاہی دیا گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اسے واپس کردوں۔ کیونکہ میرا آنا جانا بہت کم ہوتا ہے۔ پھر میرے اپنی ذاتی محافظ بھی ہیں۔ تاہم قریبی لوگوں نے کہا کہ سپاہی کو رکھ لیں تو میں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ جب حکومت نے علما کی سیکورٹی واپس لی تو مجھ سے بھی یہ واحد سپاہی واپس لے لیا گیا۔ تاہم ایک ہی دن گزرا تھا کہ مجھے ایک کے بجائے دو سپاہی دے دیئے گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ حملے سے ایک روز پہلے ان دو سپاہیوں میں سے ایک سپاہی دوبارہ واپس لے لیا گیا تھا۔ لہٰذا حملے کے وقت ایک ہی سپاہی محمد فاروق میرے ساتھ تھا، جو شہید ہوگیا۔
س: عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان کی چھٹی حس اسے بہت کچھ بتادیتی ہے ۔ کیا حملے کے روزاس قسم کا کوئی خیال آیا تھا؟
ج: بالکل نہیں۔ میں آپ کو سچ کہتا ہوں کہ جس وقت گولیوں کی بارش ہو رہی تھی، اس وقت بھی بالکل یقین تھا کہ یہ گولیاں مجھے نہیں لگیں گی۔ میری اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں۔ جو درست بات تھی، وہ میں نے بتادی۔ کیوں یقین تھا۔ اس کی وجہ تو نہیں بتا سکتا۔ بس یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بچالے گا۔
س: کہا جارہا ہے کہ حملہ مکمل ریکی کے بعد کیا گیا۔ تو کیا ہر جمعہ کو مقررہ وقت پر نماز پڑھانے کے لئے گھر سے نکلنا آپ کا معمول تھا؟
ج: جی بالکل یہ میرا معمول تھا۔ اور یقیناً حملہ آوروں نے زبردست ریکی کی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جمعہ کو میرا پروگرام تبدیل تھا۔ بدھ کے روز کی ملتان کے لئے میری سیٹ بک تھی۔ یعنی جمعہ کو مجھے کراچی میں نہیں ہونا تھا۔ یوں زیادہ تر لوگوں کو یہی معلوم تھا کہ اس جمعہ کو میں معمول کے مطابق مسجد بیت المکرم نماز پڑھانے نہیں جائوں گا۔ لیکن ہوا یہ کہ اچانک میری فلائٹ کینسل ہوگئی اور میں ملتان نہیں جاسکا۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں تھی۔ تقریباً سب یہی سمجھ رہے تھے کہ میں ملتان جاچکا ہوں۔ اس کے باوجود حملہ آوروں کی انفارمیشن ایسی تھی کہ انہیں پتہ چل گیا کہ میرا ملتان جانے کا پروگرام کینسل ہوچکا ہے اور اب میں معمول کے مطابق جمعہ کی نماز پڑھانے مسجد بیت المکرم جائوں گا۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ انہوں نے اس بات کی کنفرمیشن کے لئے اپنے لوگ بھی دارالعلوم کورنگی بھیجے۔ حملے سے قبل قریباً دوپہر بارہ بجے کچھ نامعلوم افراد دارالعلوم آکر یہ پوچھتے رہے کہ آج یہاں نماز کون پڑھائے گا؟ نماز کس وقت ہوگی؟ ہم تو مفتی صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے آئے تھے۔ شاید وہ یہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ میں کب مسجد بیت المکرم جانے کے لئے گھر سے روانہ ہوں گا اور یہ کہ پروگرام تبدیل تو نہیں ہوگیا ہے۔
س: آپ کا کہنا ہے کہ ملتان کی فلائٹ کینسل ہونے کا بہت کم لوگوں کو علم تھا۔ ان میں کچھ باہرکے لوگ بھی تھے ؟
ج: ظاہر ہے کہ باہر کے کچھ لوگوں کو بھی اس کا علم ہوگا۔ کیونکہ ملتان میں اطلاع کردی گئی تھی کہ فلائٹ کینسل ہوجانے کے سبب میں وہاں نہیں پہنچ پائوں گا۔
س: حملے کی تفتیش کے سلسلے میں آپ کو اعتماد میں لیا جارہا ہے ؟
ج: بالکل مجھے آگاہ رکھا جارہا ہے۔ اندازہ ہے کہ تفتیش پوری تن دہی سے کی جارہی ہے۔ یہ تفتیش قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے مل کر کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ تفتیش پوری سنجیدگی سے کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں بعض باتیں آف دی ریکارڈ ہیں۔ لہٰذا بتائی نہیں جاسکتیں۔ تاہم تفتیش جس سمت میں کی جارہی ہے۔ میں اس سے مطمئن ہوں۔
س: آپ اس حملے کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
ج: میں یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مجھ پر قاتلانہ حملے کو ہرگز کسی فرقہ واریت سے منسوب نہ کیا جائے۔ بظاہر یہ ملک دشمنوں کی سازش تھی کہ یوم پاکستان پر افراتفری پیدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ناکام بنادیا۔ اور اس کا سہرا میرے دوشہید ساتھیوں اور دو زخمیوں کے سر ہے۔
س: قاتلوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: قاتلوں کو میں ہدایت کے راستے کی دعوت دوں گا کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ انہیں صحیح راستہ دکھائے اور خیر کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭٭٭
دس جانیں بھی مفتی صاحب پر قربان ہیں- مفتی صاحب کے بہادر ڈرائیور کا عزم
مفتی تقی عثمانی صاحب کے ڈرائیور حبیب کا آپریشن کیا جاچکا ہے اور اس کے جسم سے گولیاں بھی نکال دی گئی ہیں۔ حبیب مفتی تقی عثمانی کے ساتھ پچھلے سترہ اٹھارہ برس سے ہے۔ آپریشن کے بعد حبیب کو انتہائی نگہداشت کے بتایا ’’میں نے فون پر حبیب سے کہا کہ ساری دنیا تمہیں ہیرو کہہ رہی ہے‘‘۔ اس پر وہ کہنا لگا ’’اگر میری دس جانیں بھی ہوتیں تو آپ پر قربان کردیتا‘‘۔
وارڈسے دوسرے وارڈ میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ مفتی صاحب نے بتایا ’’میں نے فون پر حبیب سے کہا کہ ساری دنیا تمہیں ہیرو کہہ رہی ہے‘‘۔ اس پر وہ کہنا لگا ’’اگر میری دس جانیں بھی ہوتیں تو آپ پر قربان کردیتا‘‘۔

فرشتے گولیوں کا رخ پھیر رہے تھے – امام مسجد الحرام کا فون
انٹرویو کے دوران سعودی عرب، ڈنمارک اور انگلینڈسمیت مختلف ممالک سے مفتی تقی عثمانی کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ان کے پاس فون آتے رہے۔ جبکہ اسپین سے ان کا ایک شاگرد خصوصی طور پر ان سے ملنے کیلئے آیا تھا۔ اس دوران مسجد الحرام کے امام و خطیب اور سعودی علماء کونسل کے رکن الشیخ صالح بن حمید نے شیخ الاسلام کی خیریت دریافت کرنے کیلئے فون کیا۔ شیخ الاسلام نے قاتلانہ حملے میں بچ جانے کو معجزہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے فرشتے نازل کئے تھے، جو گولیوں کا رُخ پھیر رہے تھے۔ شیخ صالح بن حمید، عالم اسلام کے سب سے بڑے فقہی فورم مجمع الفقہ الاسلامی (International Islamic Fiqh Academy) کے رکن ہیں۔ جبکہ مفتی تقی عثمانی اس فورم کے نائب رئیس ہیں۔ اس دوران محفل میں موجود شیخ الاسلام کے خدام نے بتایا کہ مفتی صاحب کو سعودی عرب میں بڑی عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ سعودی حکومت انہیں فیملی سمیت کئی بار اپنی شہریت کی پیشکش کر چکی ہے۔ لیکن مفتی تقی عثمانی اپنے وطن کی محبت میں اس مقدس سرزمین میں مستقل بسنے کو تیار نہیں ہیں۔ ٭

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More