سجادہ نشین پھرچونڈی شریف اسلام آباد پہنچ گئے

0

عظمت علی رحمانی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحفظ کیلئے درخواست دائر کرنے والی گھوٹکی کی نو مسلم بہنوں آسیہ اور نادیہ کو سرکاری تحویل میں دے دیا۔ پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو کے بیٹے وکیل اسلم میاں اور درگاہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین میاں جاوید اقبال نو مسلم لڑکیوں کی مدد کیلئے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ ادھر ایس ایس پی گھوٹکی کی جانب سے طلبی پر پیر عبدالحق نے خود کو پیش کیا، تاہم انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو کا کہنا ہے کہ بھارتی ایجنسی کے ایجنٹ اقلیتوں کے حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ درگاہ بھرچونڈی شریف میں ایک سال کے دوران اسلام قبول کرنے والی لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد برابر ہے۔
واضح رہے کہ نو مسلم بہنوں کا معاملہ اب وفاقی دارالحکومت کی عدالت پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں گھوٹکی کی دو بہنوں کے مبینہ اغوا کے کیس کی سماعت ہوئی۔ لڑکیوں کی والدہ سمیت بھائی شمن داس اور وکیل افتخار احمد چیمہ عدالت میں پیش ہوئے۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اقلیتوں کے حقوق آئین پاکستان میں درج ہیں اور قرآن پاک میں بھی واضح ہیں۔ انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ کے خطبے کا حوالہ دیتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی۔ سماعت کے دوران ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقت نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے بھی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا حکم دیا تھا؟۔ وفاقی حکومت نے جس انکوائری کا حکم دیا، اس کی رپورٹ کب تک آئے گی؟۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت دی کہ حتمی رپورٹ آنے تک یہ دونوں بہنیں آپ کی مہمان ہیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو کہیں کہ گارڈین جج کا تقرر کریں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے یہ حکم بھی دیا کہ ایس پی رینک کی خاتون پولیس افسر کو لڑکیوں کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور کرکے انہیں مکمل تحفظ فراہم کریں۔
دوسری جانب ایک بار پھر اس کیس کو لیکر لبرل لابی اور قادیانی میڈیا کی جانب سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ ہر بار ہندو لڑکیاں ہی کیوں مسلمان ہوتی ہیں، لڑکے اسلام کیوں قبول نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایک بل منظورکرکے قانون سازی کی گئی تھی، جس میں شادی کی لازمی عمر 18 سال مقرر کی گئی اور اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکیوں کی شادی غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔
جس کی وجہ سے گھوٹکی کی نو مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے والے لڑکوں نے شادی پنجاب کے ضلع خانپور کے علاقے کٹورہ میں رجسٹرڈ کرائی، کیونکہ پنجاب میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ تاہم سندھ حکومت کی جانب سے سندھ پولیس کو پنجاب روانہ کرکے ان لڑکیوں کی شوہروں سمیت گرفتاری کی تیاری کی گئی، جس کے بعد پنجاب میں نکاح خواں سمیت دیگر سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم درگاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر میاں جاوید اقبال اور پیر عبدالرحمن عرف میاں مٹھو کے صاحبزادہ میاں اسلم ایڈووکیٹ نو مسلم لڑکیوں کی سپورٹ کیلئے اسلام آباد پہنچ گئے، جہاں وہ ان کی بھرپور مدد و تعاون کررہے ہیں۔
ادھر گزشتہ روز ایس ایس پی گھوٹکی ڈاکٹر فرخ علی کی جانب سے پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو کو بلایا گیا، جس پر وہ گرفتاری دینے کیلئے تھانے پہنچ گئے، لیکن ایس ایس پی نے بیان لیکر انہیں واپس بھیج دیا تھا۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے رابطہ کرنے پر پیر عبدالحق نے بتایا کہ ’’یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ صرف لڑکیاں ہی مسلمان ہوتی ہیں، لڑکے کیوں مسلمان نہیں ہوتے۔ اس پر ہم نے میڈیا نمائندوں کو تفصیلات دی ہیں کہ ایک سال میں اسلام قبول کرنے والوں میں نصف تعداد لڑکوں کی ہے۔ لیکن ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہمیشہ لڑکیوں کے قبول اسلام کو موضوع بنا کر واویلا کرتے ہیں، جو اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ ہم نے سیاست کو پس پشت ڈال دیا ہے، دین پھیلانا اور ملک کی حفاظت کرنا ہمارا کام ہے۔ ہمارے آباواجداد نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ گاندھی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پیر عبدالرحمن سجادہ نشین بھرچونڈی شریف نے کانگریس کے لوگوں کے ووٹ مسلم لیگ کو ڈلوائے تھے۔ ہم پر براہ راست کوئی دباؤ نہیں ہے۔ مجھے ایس ایس پی نے بلایا تھا، جس پر میں بوریا بستر لیکر گرفتاری دینے گیا تھا۔ لیکن ایس ایس پی نے بیان لے کر مجھے واپس بھیج دیا۔ نومسلم بچیوں کی سپورٹ کیلئے میرا بیٹا میاں اسلم ایڈووکیٹ اور درگارہ عالیہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر میاں جاوید اقبال اسلام آباد میں موجود ہیں۔ ان کی مدد و حمایت ہمارا فرض ہے‘‘۔
دوسری جانب علمائے کرام نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر نو مسلم لڑکیوں پر دباؤ ڈالنے اور ان کے شوہروں کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر فورم پر احتجاج کیا جائے گا۔ مفتی محمد زبیر حق نواز کا کہنا ہے کہ نو مسلم لڑکیاں ہماری بہنیں ہیں اور مسلمان ان کے ولی ہیں۔ ہم ان کی ہر فورم پر مدد و حمایت کریں گے۔ مفتی شبیر احمد عثمانی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں کہ نو مسلم بچیاں جہاں رہنا چاہتی ہیں وہیں ان کو رکھا جائے۔ ان بچیوں کو دارالامان کے بجائے کسی مدرسہ میں بھیجنا چاہئے تھا، تاکہ وہاں دینی تعلیم حاصل کرسکیں۔ ادھر گھوٹکی کی نو مسلم لڑکیوں کے حوالے سے جمعیت اہلحدیث پاکستان کا اجلاس مرکز اہلحدیث میں چیف آرگنائزر مولانا محمد یوسف سلفی کی زیر صدارت ہوا، جس میں انہوں نے سندھ کی دو بہنوں کے قبول اسلام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام تر مخالفتوں اور دباؤ کے باوجود اسلام کی دعوت عام ہو رہی ہے اور لوگ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ جو لڑکیاں مسلمان ہو چکی ہیں انہیں ہراساں کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ سندھ حکومت ہوش کے ناخن لے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں۔ جو لوگ عمر کی قدغن لگا کر غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا چاہتے ہیں وہ اغیار کے ایجنٹ ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ آزادی اظہار کا احترام کریں، ورنہ ہم ایسے افراد اور این جی اوز کا محاسبہ کرنے کیلئے میدان عمل میں نکلیں گے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More