سرفروش

0

عباس ثاقب
ادھر یاسر ہماری کیفیات سے بے خبر بات آگے بڑھا چکا تھا۔ ’’ہماری طرف سے مطمئن ہونے کے بعد ہمیں ایک صاف ستھرے، خوب صورتی سے آراستہ گھر میں لے جاکر مہمان نوازی کے تقاضے نبھاتے ہوئے سکھبیر نے بتایا کہ انہیں گزشتہ چھتیس گھنٹوں کے دوران پورے پنجاب اور خصوصاً امرتسر اور گرد و نواح کے علاقوں میں پولیس کی طرف سے سکھ نوجوانوں کے خلاف تابڑ توڑ کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ ہرمندر صاحب کے درجن بھر زائرین کو بھی پولیس کی طرف سے بد سلوکی اور کڑی پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ افراد حراست میں بھی لئے گئے۔ تاہم وہ لوگ پولیس کے اچانک اس طرح متحرک ہونے کی وجوہ سمجھنے سے قاصر تھے‘‘۔
میں یاسر کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ تاہم ان میں سے کچھ بھی میرے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ چنانچہ یاسر کی بات مکمل ہونے پر میں نے پوچھا۔ ’’سکھبیر نے میرے لیے کوئی پیغام تو نہیں بھجوایا؟‘‘۔
یاسر نے بتایا۔ ’’اس نے کہلوایا ہے کہ آپ فی الحال کچھ دنوں تک ہرمندر صاحب کا رخ کرنے سے گریز کریں۔ اور مزید کسی ساتھی کو بھیج کر اس کی زندگی خطرے میں ڈالنا بھی مناسب نہیں ہے۔ بلکہ اس نے مشورہ دیا ہے کہ آپ احتیاطاً کچھ دنوں کے لیے پنجاب سے کہیں اور چلے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ پولیس کے پاس اب آپ کے حوالے سے کافی ٹھوس معلومات موجود ہیں‘‘۔
میں نے یہ سن کر اثبات میں سر ہلایا۔ سکھبیر کا مشورہ بلاشبہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ تھا۔ لیکن اس مشورے پر عمل کرنا یا نہ کرنا میرے ہاتھ میں کب تھا؟ میں جو کچھ بھی اب تک کرتا رہا تھا، وہ حالات کے بہاؤ کا نتیجہ تھا۔ اور آئندہ بھی میرا ہر اقدام غالباً اس وقت کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہوتا۔ اگر پنجاب کی حدود کے اندر میرے لیے خطرات بڑھ چکے تھے تو یہاں سے نکل کر کسی اور ریاست میں منتقل ہونا کون سا خطرے سے خالی تھا؟ تمام تر خطرات کے باوجود یاسر اور رخسانہ کو امرتسر بھیجنا بھی تو حالات کے جبر ہی کا نتیجہ تھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ ویسے بھی میں اپنے مقاصد پورے کیے بغیر یہاں سے کیسے جا سکتا ہوں؟ میرا کشمیری حریت پسندکے روپ میں ہرمندر صاحب جاکر سکھبیر اور اس کے ساتھیوں سے ملاقات کرنا اور کشمیری مجاہدین اور خالصتان تحریک کے جاں بازوں کے درمیان تعاون کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا تو ایک ہنگامی قدم تھا۔ اصل فریقوں کے درمیان معاملات طے ہونا تو ابھی باقی ہیں۔ جس کے لیے مجھے ظہیر کو سکھبیر سے ملانا پڑے گا۔ لیکن صرف اپنی جان کو لاحق خطرے سے ڈر کر میں اپنی ساری کاوش مٹی میں ملادوں؟
یاسر کی یہ عادت مجھے بہت پسند تھی کہ وہ کسی بھی معاملے میں صرف ضروری حد تک دخل دیتا تھا۔ اس کے علاوہ صرف اپنے کام سے کام رکھنے پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے عندیہ لینے میں قطعاً دلچسپی نہیں دکھائی کہ میں سکھبیر کے اس مشورے پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں یا نہیں۔ اس نے میری درخواست اور ہدایات کے عین مطابق اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبھائی تھی اور کام مکمل ہونے کے بعد اب ایک طرح سے سارے معاملے سے لاتعلق ہوگیا تھا۔ اپنی اس مہم کے حوالے سے اس نے صرف اہم باتیں ہمیں بتائی تھیں۔ غیر ضروری تفصیلات میں جانے کی زحمت نہیں کی تھی۔
دیر سے سونے کے باوجود صبح سویرے میری آنکھ کھل گئی۔ ناصر پہلے ہی جاگ چکا تھا۔ ہمارے منہ ہاتھ دھونے کے کچھ ہی دیر بعد جمیلہ ناشتہ لے آئی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ناصر نے آڑھت خانے جانے کی اجازت طلب کی تو میں نے اس سے تازہ اخبار کی فرمائش کر دی۔ کچھ ہی دیر میں ناصر کا نو عمر ملازم مجھے معروف انگریزی اخبار ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کے چندی گڑھ ایڈیشن کی اس روز کی کاپی دے گیا۔ میں نے بے تابی سے شہ سرخیوں پر نظر دوڑائی۔ مجھے اپنی مطلب کی خبر ڈھونڈنے میں ذرا بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ صفحہ اول کی ایک تین کالمی خبر میں پنجاب پولیس کے ترجمان کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ جالندھر کے بس اڈے پر جلتی ہوئی بس سے برآمد ہونے والی پولیس انسپکٹر جگدیش مراری کی لاش کے طبی معائنے سے ثابت ہو گیا ہے کہ اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ اور غالباً اس کی لاش کو شناخت سے بچانے کے لیے ہی ناکارہ بس کو آگ لگائی گئی تھی۔ تاہم لاش کو پوری طرح بھسم ہونے سے پہلے ہی بس سے نکال لیا گیا تھا۔
ایک اور ذیلی خبر میں محکمہ پولیس کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے انسپکٹر جگدیش مراری کے قاتلوں کا سراغ لگا لیا ہے اور اس حوالے سے کئی گرفتاریاں بھی کی جا چکی ہیں۔ محکمے کی طرف سے ممبر اسمبلی اور کانگریس کے مقامی لیڈر مٹھو سنگھ اور اس کے منیم کے قاتل گروہ کو جلد گرفتار کر کے عبرت ناک انجام سے دو چار کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More