عمران خان
کسٹم کے اسٹیٹ ویئر ہائوس سے مسروقہ چھالیہ کے کیس کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کرپٹ کسٹم افسران نے چند ماہ میں 80 ٹن چھالیہ چوری کر کے اوپن مارکیٹ میں فروخت کیں، جس کی مالیت 8 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ مذکورہ انکشاف اور آڈٹ کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کراچی میں موجود کسٹم کے 7 اسٹیٹ ویئر ہائوسز کا ہنگامی آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس پر جلد عمل درآمد کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ چوری میں ملوث ملزمان ایک پورے نیٹ ورک سے جڑے ہیں۔ انہوں نے منصوبہ بنا رکھا تھا کہ کسٹم ڈے کے موقع پر جب پورے سال میں پکڑے جانے والی منشیات اور مضر صحت اشیا جلائی جائیں گی، اس وقت مسروقہ چھالیہ کی جگہ پر رکھی گئی لکڑی کے برادے اور کھجور کی گھٹلیوں کی بوریاں بھی جلادی جائیں گی، تاکہ تمام ثبوتوں کو مٹایا جاسکے۔ تاہم ایسا اس لئے نہیں ہو سکا کہ پکڑی جانے والی چھالیہ کے حوالے سے بعض ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے کیسوں پر معاملات میں عدالت میں پٹیشن دائر تھیں، جس پر حکم امتناعی جاری ہوئے تھے۔ اس لئے ایسے کیسوں میں مسروقہ سامان کو کسٹم ڈے پر جلائے جانے والے سامان میں شامل نہیں کیا گیا اور اسی دوران چوری کے اس معاملے کی سن گن کسٹم کے اعلیٰ حکام تک پہنچ گئی۔ جس پر انکوائری کے لئے پہلے ایک آڈٹ کمیٹی بنائی گئی، جس کی رپورٹ آنے پر کسٹم کے ملوث افسران کے خلاف محکمہ جاتی تحقیقات شروع کی گئیں اور الزامات ثابت ہونے پر گزشتہ روز ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
کسٹم ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق گزشتہ روز ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس میں تعینات انٹیلی جنس افسران نے گودام میں رکھی ہوئی 8 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی آٹھ ٹن چھالیہ کی چوری کیس میں کسٹم کے اسٹیٹ ویئر ہائوس میں تعینات انٹیلی جنس آفیسر محمود اکبر اور اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن میں تعینات انٹیلی جنس آفیسر پرویز احمد زرداری کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ مقدمہ کی بنیاد بننے والی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ انٹیلی جنس آفیسر پرویز احمد زرداری نے مختلف کارروائیوں میں پکڑی جانے والی 8 کروڑ سے زائد مالیت کی چھالیہ چوری کر کے اس کی جگہ کھجورکی گٹھلیاں اور لکڑی کا برادہ رکھ دیا تھا، تاکہ کسی کو اس بات کا شک نہ ہو کہ گودام سے چھالیہ چوری کرلی گئی ہیں۔ یہ تمام معاملات ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کراچی کے سابق ڈائریکٹر فیاض انور کے ہوتے ہوئے جاری رہے۔ تاہم اس پر خاموشی اختیار کی گئی۔ تاہم حالیہ عرصہ میں جب کسٹم انٹیلی جنس میں اہم تبدیلیاں ہوئیں۔ ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس شوکت علی کی جگہ زاہد کھوکھر کو تعینات کیا گیا اور کراچی میں ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس فیاض انور کا تبادلہ کرکے عرفان جاوید کو چارج دیا گیا تو اس معاملے پر تحقیقات کو تیزی سے آگے بڑھایا گیا۔ جس کے نتیجے میں گزشتہ روز انٹیلی جنس افسر پرویز احمد زرداری اور محمود اکبر پر الزامات ثابت ہونے کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ خورد برد میں ملوث دونوں افسران کے خلاف شکایت گودام پر تعینات کسٹم ملازمین کی جانب سے ہی کی گئی تھی۔ ڈائریکٹوریٹ آئی اینڈ آئی سے موصول ہونے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب کسٹم کے سائٹ میں بنوری ٹائون کے قریب موجود گودام کے ملازمین کی جانب سے ڈائریکٹوریٹ کے اعلیٰ حکام کو رپورٹ ارسال کی گئی کہ ڈائریکٹوریٹ کے دو انٹیلی جنس افسران بے قاعدگیوں میں ملوث ہیں۔ کیونکہ تفتیشی افسر پرویز احمد زرداری اور محمود اکبر گزشتہ دنوں چھاپوں میں ضبط کی گئی چھالیہ کی بڑی مقدار گودام میں پہنچانے گئے، تاہم انہوں نے جب بوریاں گودام میں رکھوانا شروع کیں تو گودام کے ملازمین کو شک ہوا۔ انہوں نے تفتیشی افسران سے پوچھا کہ وہ یہاں پر کیا سامان رکھ رہے ہیں تو ان تفتیشی افسران نے بتایا کہ وہ کھجور کی گھٹلیاں اور کچھ دیگر سامان رکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ملازمین کو پہلے بتایا گیا تھا کہ دو انٹیلی جنس افسران چھالیہ کی کھیپ یہاں پر رکھوانے کیلئے آرہے ہیں۔ ان افسران کے جانے کے بعد گودام کے ملازمین کی جانب سے اس واقعے کی رپورٹ تفصیل کے ساتھ اعلیٰ حکام کو دی گئی، اور دونوں افسران کے خلاف کئی روز تک انکوائری جارہی رہی۔ بالآخر تحقیقات میں ان پر الزامات ثابت ہونے پر ان کے خلاف منگل کے روز باقاعدہ مقدمہ درج کر کے مزید تفتیشی شروع کردی گئی۔ ذرائع کے بقول آڈٹ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس آفیسر پرویز احمد زرداری کو ضبط شدہ چھالیہ اسٹیٹ ویئر ہائوس میں رکھنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ لیکن چھالیہ کی چوری میں ملوث پرویز احمد نے اعلیٰ آفیسرکی سرپرستی میں9 کروڑ سے زائد مالیت کی 93 ہزارکلو گرام چھالیہ گودام میں رکھنے کے بجائے مارکیٹ میں فروخت کرکے اس کی جگہ کھجورکی گٹھلیاں اور لکڑی کا برادہ رکھ دیا۔ چونکہ مذکورہ آفیسر تنہا اتنا بڑا کام نہیں کرسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے مقدمہ درج کر کے اس کا دائرہ پھیلایا گیا۔ تاہم ایک سینئر کسٹم افسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسٹم حکام اس معاملے کو دبانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر چوری اور کرپشن میں ملوث کسٹم افسران کے خلاف واقعتاً کارروائی کرنا مقصد ہے تو پھر اس معاملے پر کسٹم میں مقدمہ درج کرنے کے بجائے ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی آگے بڑھائی جاتی۔ کیونکہ وفاقی اداروں کے افسران کی جانب سے کرپشن اور بدعنوانی کے معاملات پر ایف آئی اے کے تحت کارروائی کی جاتی ہے اور ایف آئی اے کے پاس اس ضمن میں اینٹی کرپشن کے تمام موثر قوانین موجود ہیں۔ کسٹم قوانین کے تحت ٹیکس چوری، فراڈ اور اسمگلنگ کی دفعات کے تحت ہی مقدمات درج کئے جاسکتے ہیں۔ جبکہ اینٹی کرپشن کی دفعات کسٹم ایکٹ میں موجود نہیں ہیں۔ ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس کے اسٹیٹ ویئر ہائوس میں تعینات انٹیلی جنس آفیسر محمود اکبر کا نام بھی ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ محمود اکبر نے 3 فروری 2019ء کو ایک مکتوب اور ویڈیو لنک سے ڈائریکٹوریٹ کو آگاہ کیا تھا کہ انٹیلی جنس آفیسر پرویز احمد زرداری 3 فروری 2019ء کو صبح تین بجے چھالیہ کی بوریاں لے کر آیا تھا۔ تاہم وہاں موجود سپاہی آفاق قریشی نے اسٹیٹ ویئر ہائوس کی اجازت کے بغیر بوریاں گودام میں رکھنے سے منع کر دیا اور بوریاں باہر رکھ دیں گئی تھیں۔ تاہم 3 فروری کی صبح جب انٹیلی جنس آفیسر محمود اکبر نے اسٹیٹ ویئر ہائوس آکر بوریوںکی جانچ پڑتال کی تو بوریوں میں چھالیہ کے بجائے کھجور کی گٹھلیاں اور لکڑی کا برادہ موجود تھا۔ انٹیلی جنس آفیسر محمود اکبر کی جانب سے لکھے گئے مکتوب میں تمام تر حقائق سے اعلیٰ افسران اور اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کے سپرنٹنڈنٹ کو آگاہ کیا گیا۔ لیکن کسٹمز انٹیلی جنس نے محمود اکبر کو اس لئے چھالیہ کی چوری میں ملوث قرار دیا کہ انہوں نے یہ تمام اقدامات انتہائی تاخیر سے کئے، جب جرم سرزد ہوچکا تھا۔ پھر انہوں نے خود کو معاملے سے بچانے کے لئے اعلیٰ حکام کو اس وقت آگاہ کیا جب معاملے کی سن گن پہلے ہی متعلقہ حکام کو مل چکی تھی اور اس پر خاموش انکوائری شروع کی جاچکی تھی۔
٭٭٭٭٭