امت رپورٹ
باوثوق ذرائع کے مطابق شہباز شریف لندن میں اپنی جائیداد کی فروخت کیلئے کوئی فیصلہ کرنے برطانیہ جا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب لندن میں چار لگژری فلیٹس کے مالک ہیں۔ وہاں ان کی جانب سے کسی سیاسی سرگرمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایف بی آر سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق شہباز شریف نے یہ فلیٹس 2005ء سے 2007ء کے عرصے میں خریدے تھے۔ یہ فلیٹس برکلے اسٹریٹ ویسٹ ٹاور پان پینسلوانیا اور اسٹائنز روڈ لندن میں واقع ہیں۔ مذکورہ فلیٹس کے حوالے سے نیب نے ان سے کئی سوالات کئے تھے، جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی تمام جائیداد اور اثاثوں کا حساب کتاب ان کے بیٹے سلمان شہباز ہی دیکھتے اور رکھتے ہیں۔ لیکن سلمان شہباز نیب کے سامنے پیش ہونے کے بجائے ملک سے باہر چلے گئے اور اب تک بیرون ملک ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے داماد عمران یوسف بھی لندن میں ہی موجود ہیں۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کا نام نیب کی درخواست پر ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔ شہباز شریف نے اس فیصلے کو چیلنج کیا، جس کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ کیس کی تحقیقات اکتوبر 2018 میں شروع کی گئیں، لیکن تاحال معاملہ ریفرنس کے اسٹیج تک پہنچا ہی نہیں۔ سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اپنے دلائل میں کہا کہ شہباز شریف کے خلاف مقدمہ ابھی تحقیقات کے مرحلے میں ہے۔ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا علم اخبارات کے ذریعے ہوا۔ وکیل کے مطابق شہبازشریف کا نام غیر قانونی اثاثے بنانے کے ریفرنس میں ای سی ایل میں ڈالا گیا۔ تاہم وہ ہر انکوائری میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ یہ انکوائری ریفرنس نہیں بنی، بلکہ ایک مشکوک ٹرانزیکشن پر 23 اکتوبر 2018ء کو تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ واضح رہے کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کے فیصلے کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے حکومت کی جانب سے چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن 28 مارچ تک ایسی کوئی درخواست سپریم کورٹ میں دائر نہیں کی گئی تھی۔ ذرائع کے بقول ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل ہوئی ہے، جس کے تحت عدالتی فیصلے کیخلاف اپیل نہیں کی گئی۔ دوسری جانب نواز شریف کی طبی بنیاد پر ضمانت پر رہائی اور شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے سے عمران خان کا احتساب کا نعرہ کمزور پڑ گیا ہے۔ شہباز شریف کے لندن جانے کی خبر گرم ہے، جہاں نواز شریف کے دونوں بیٹوں کے علاوہ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی موجود ہیں، جن کے شہباز شریف کے ساتھ نواز شریف کی بہ نسبت زیادہ گہرے تعلقات ہیں، جبکہ رشتے میں اسحق ڈار نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ جبکہ یہ خبریں بھی آتی رہی تھیں کہ نیب نے سابق وزیر اعلی شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز، داماد عمران علی یوسف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت دیگر مفرور ملزمان کو بیرون ملک سے واپس لانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں اور اس سلسلے میں انٹرپول سے رابطہ کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پھر حکومت شہباز شریف کے سامنے پسپا ہوتی چلی گئی۔ انہیں پہلے قائد حزب اختلاف تسلیم کیا، پھر کہا کہ ہم انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنائیں گے۔ تاہم بعدازاں نہیں پورے اختیارات کے ساتھ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اب شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے بھی نکل گیا ہے۔ ذرائع کے بقول شہباز شریف یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کو فوج کے خلاف بیان بازی سے روک لیا۔ لیکن شہباز شریف ابھی تک وہ مقام نہیں حاصل کرسکے ہیں جو انہیں ماضی میں فوج کے ساتھ تعلقات میں حاصل تھا۔ تاہم ان کی کامیابیاں بتا رہی ہیں کہ وہ لندن جا کر معاملات کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ لیگی ذرائع کے مطابق شہباز شریف نواز شریف کی طرح جارحانہ پالیسی نہیں رکھتے، بلکہ وہ درپردہ تحریک انصاف کی حکومت کو تعاون کی پیشکش بھی کرچکے ہی۔ رواں ماہ مارچ میں شہباز شریف نے پی ٹی آئی حکومت کو پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ضد، انا اور تکبر کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کی طرف آئے۔ انہوں نے یہ دعوت بھی دی کہ پاکستان کو معاشی قوت بنانے کیلئے ملک کر کام کریں۔ پی ٹی آئی حکومت معیشت کے چیلنج کو سنجیدہ لے۔ ابھی تک حکومت معاشی پالیسی اور حکمت عملی نہیں دے سکی۔ مضبوط اور مستحکم معیشت سے ہی قومی سلامتی کو نابل تسخیر بنایا جاسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان ایسی کسی پیشکش کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ شہباز شریف کی اس پیشکش کو وفاقی وزراء کی جانب سے این آر او کہا گیا تھا۔ ن لیگ کے ایک سابق فوجی سینیٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی عرصے سے مقتدر حلقوں کے ساتھ این آر او کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، یہ وقت ہی بتائے گا۔
٭٭٭٭٭