چھ ہزار بے نامی اکائونٹس کی تفصیلات حاصل کرلی گئیں

0

عمران خان
ایف بی آر نے ملک بھر کے 6 ہزار سے زائد بے نامی بینک اکائونٹس کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔ بے نامی اکائونٹس سے ماہانہ اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ بھی اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ نے حاصل کرلیا ہے، جو ایف بی آر کو مل چکا ہے۔ یکم اپریل سے بے نامی اکائونٹس کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا جا رہا ہے۔ جس کو تین مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں بے نامی بینک اکائونٹس ہولڈرز اور ان کے پس پردہ موجود سرمایہ کاروں، تاجروں، سرکاری افسران اور سیاسی شخصیات کے خلاف بے نامی ایکٹ اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ یہ کارروائیاں ماہانہ 1 کروڑ روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز پر کی گئیں۔ یعنی ان بینک اکائونٹس میں ماہانہ ایک کروڑ روپے ڈالے بھی گئے اور نکالے بھی گئے۔ ایف بی آر کے دو شعبوں کو خصوصی طور پر اس آپریشن کیلئے مشترکہ طور پر خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے۔ ان میں ایف بی آر کا ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو اسلام آباد اپنے پانچوں صوبائی زونل ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ ایف بی آر کے دوسرے شعبے ٹی بی ٹی یعنی براڈنگ ٹو ٹیکس بیسڈ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ایف بی آر کے دونوں شعبوں کے افسران کا کہنا ہے کہ 6 ہزار سے زائد یہ بے نامی بینک اکائونٹس وہ ہیں، جن پر ابتدائی طور پر کام شروع کیا گیا ہے اور یہ آپریشن وقت کے ساتھ آگے بڑھتا رہے گا۔ جیسے جیسے مزید بے نامی بینک اکائونٹس اور اثاثے سامنے آتے رہیں گے، ان کے خلاف اسی پروسیجر کے تحت کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔ شعبہ آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کے افسران کے مطابق براڈننگ ٹو ٹیکس بیسڈ کے شعبے کے افسران کو گزشتہ 6 ماہ میں جمع ہونے والی رپورٹیں ارسال کردی گئی ہیں، جن پر اسٹیٹ بینک کے ذریعے متعلقہ تمام نجی بینکوں سے اکائونٹس ہولڈرز یعنی کھاتے داروں کا ڈیٹا جمع کیا گیا ہے۔ یہ وہ رپورٹیں ہیں جو گزشتہ چند ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے شعبہ ایس آئی یو کی جانب سے ان بینک اکائونٹس پر جاری کی گئیں، جن پر بے نامی ہونے اور منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے کا شبہ ہے۔ افسران کے بقول مذکورہ 6000 سے زائد بے نامی بینک اکائونٹس ملک بھر کے تمام شہروں سے لئے گئے ہیں۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ تعداد کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور روالپنڈی کے اکائونٹ ہولڈرز کی ہیں اور انہیں سے کریک ڈائون کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہ آپریشن سندھ میں آر ٹی یو ٹو یعنی ایف بی آر کے ریجنل ٹیکس آفس کے شعبے بی ٹی بی کے ڈائریکٹر بدرالدین قریشی اور آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کے ڈائریکٹر عارف بلو کر رہے ہیں۔ جبکہ دونوں شعبوں میں اس وقت 8 ٹیمیں یکم اپریل سے کارروائی شروع کرنے کے لئے تیزی سے کام کر رہی ہیں۔ افسران کے بقول سب سے پہلے بے نامی بینک اکائونٹ رکھنے والوں کو نوٹس جاری کئے جائیں گے اور ان کے بیانات کی روشنی میں کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔ جن بینک اکائونٹس کی تفصیلات بینکوں سے مل چکی ہیں، ان میں نوٹس کا جواب نہ دینے والوں کے اکائونٹس اور رقم کو فوری طور پر منجمد کرنے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ جس کے اختیارات ایف بی آر کو رواں مہینے میں منظور ہونے والے بے نامی ایکٹ کے تحت حاصل ہوچکے ہیں اور اس کے لئے ایف بی آر کو اپنے اعلیٰ حکام کے علاوہ کسی دوسرے ادارے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بے نامی اکائونٹس میں اصل پیسہ ملک کے تاجروں، سیاسی افراد اور سرکاری افسران کا ہوتا ہے، جو ٹیکس چوری، کرپشن اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے پیسہ حاصل کرتے ہیں اور پھر اس رقم کو اپنے ملازمین، رشتہ داروں اور دوستوں کے ناموں پر کھلوائے گئے بینک اکائونٹس کے ذریعے آگے پیچھے منتقل کرتے ہیں اور انہیں کے ذریعے جائیدادیں ان کے نام پر خریدتے ہیں۔ اصل مالک خود پس پردہ رہتے ہیں۔ اب تک جن شہریوں کی شناخت سامنے آرہی ہے، ان میں بڑی بڑی دکانوں، جنرل اسٹور، سپر اسٹور، مارکیٹوں، شاپنگ سینٹرز کے مالکان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کروڑوں اور اربوں روپے کمالئے ہیں، تاہم ٹیکس دہندگان میں شامل نہیں۔ ان کے پیسے اور جائیدادیں دیگر لوگوں کے نام پر ہیں۔ افسران کا کہنا ہے کہ جن بے نامی اکائونٹس کے حوالے سے کھاتے دار نوٹس پر حاضر ہوں گے، ان سے رقم کی آمدنی اور ذریعہ آمدنی کا ریکارڈ لیا جائے گا اور ریکارڈ فراہم نہ کرنے والوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے تحت کارروائی کو آگے بڑھانے کے علاوہ ان سے اکائونٹ کے ذریعے ہونے والی ساری ٹرانزیکشنز پر عائد ہونے والے انکم ٹیکس سمیت ہر قسم کے لاگو ٹیکس بھی وصول کئے جائیں گے۔ ایف بی آر کے شعبہ آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کے افسران کے بقول اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے پاکستان کے تمام نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے بینک اکائونٹس میں آنے اور جانے والی رقوم پر نظر رکھی جاتی ہے۔ رقوم کی مشکوک منتقلی کی رپورٹیں ایک طے شدہ نظام کے تحت تحقیقات کے لئے ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے علاوہ ایف آئی اے، نیب اور اینٹی نارکوٹیکس فورس کے حکام کو بھیجی جاتی ہیں۔ زیادہ تعداد میں (Suspicious. Transaction Reports) ایس ٹی آر (STRs) ایف بی آر کے آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ جنرل کو اسلام آباد میں ارسال کی جاتی ہیں۔ جہاں سے ان رپورٹوں کو آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کے متعلقہ زونل ڈائریکٹوریٹس کو ارسال کردیا جاتا ہے۔ تاکہ ان پر مزید تحقیقات کی جاسکیں۔ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کی جانب سے ارساکردہ ایس ٹی آرز اگر صوبہ سندھ سے تعلق رکھتی ہوں تو اسلام آباد ڈی جی آئی اینڈ آئی کے دفتر سے ان ایس ٹی آرز کو ڈائریکٹوریٹ آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کراچی یا حیدر آباد میں ارسال کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ رپورٹیں براڈننگ ٹو ٹیکس بیسڈ شعبے کو فراہم کردی جاتی ہیں۔ کیونکہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا یعنی ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا اسی شعبے کی ذمے داری ہے۔ ذرائع کے بقول اسٹیٹ بینک کے فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ میں نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے بینک اکائونٹس میں آنے اور جانے والی رقوم کی ٹرانزیکشنز کے موصول ہونے والی Cash Transaction Reports (CTR کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں بیٹھے ہوئے افسران اس کا تعین کرتے ہیں کہ کون سی (Cash Transaction Reports (CTR کی رپورٹ ممکنہ طور پر منشیات سے کمائے ہوئی رقم کی ہوسکتی ہے یا پھر ٹیکس چوری، کالے دھن اور کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اس کیش ٹرانزیکشن رپورٹ یعنی سی ٹی آر کو دوسرے مرحلے میں ایس ٹی آر یعنی Suspicious. Transaction Reports کا درجہ دے کر متعلقہ اداروں کو ارسال کردیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو سخت اقدامات کرنے کی ہدایات کے بعد سے ایف ایم یو سے ایف بی آر کو ملنے والی مشکوک ٹرانزیکشنز رپورٹس میں اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کے بقول اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے اب سے 30 ماہ قبل تک Suspicious. Transaction Reports جاری ہونے کی رفتار بھی بہت سست تھی اور کم تعداد میں ایس ٹی آرز اداروں کو جاری ہوتی تھیں۔ تاہم تین ماہ قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے وفد کی پاکستان آمد اور اسٹیٹ بینک حکام، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے حکام سے ملاقاتیں کی گئیں۔ یہ ملاقاتیں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اس اجلاس کا تسلسل تھا جس میں پاکستان کے حوالے سے فنڈز کی غیر محفوظ منتقلی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرکے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کی بات کی گئی تھی۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے مرتب کردہ سفارشات پر مکمل عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ انہیں ملاقاتوں کے بعد اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے مذکورہ بالا اداروں کو ایس ٹی آرز ارسال کرنے کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا اور اسی دوران کئی مزدوروں اور غریب شہریوں کے بینک اکائونٹس میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کا بھی انکشاف ہوا۔ افسران کے مطابق بے نامی ایکٹ کے تحت ہر وہ بینک اکائونٹ بے نامی کے زمرے میں آتا ہے، جو کسی بھی شخص نے اپنی دولت چھپانے کے لئے کسی دوسرے شخص سے کھلوایا ہو اور اس کے ذریعے اپنی رقوم بینک میں رکھواتا ہو یا کسی دوسرے اکائونٹ میں ٹرانسفر کرواتا ہو۔ چاہے وہ شخص اس کے اپنے خاندان کا ہی فرد کیوں نہ ہو۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ماہانہ ہزاروں روپے کی آمدنی رکھنے والے شہریوں کے بینک اکائونٹس میں کروڑوں روپے آتے جاتے رہے۔ جبکہ یہ شہری نہ تو بزنس مین تھے اور نہ ہی یہ ایف بی آر میں ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے رجسٹرڈ تھے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More