عباس ثاقب
لگ بھگ پونے گھنٹے میں ہم راجپورا کے قریب پہنچ گئے۔ جہاں پہلی بار پولیس ناکے پر ہماری گاڑی روکی گئی۔ اینفیلڈ رائفل سے مسلح ایک ادھیڑ عمر سکھ سنتری نے بغور پہلے ناصر اور پھر میرا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اس نے پچھلی نشست پر شان سے ٹیک لگائے بیٹھی جمیلہ کو دیکھا اور اس کی نظریں وہیں جم کر رہ گئیں۔ اس پر میں نے سخت لہجے میں شدھ ہندی میں اسے ڈپٹا۔ ’’سب ٹھیک تو ہے سردار جی؟ کسی کھاس چیز کی کھو ج میں لگ رہے ہو مجھے؟‘‘۔
وہ میرے لہجے میں موجود رعونت اور حاکمیت بھانپ کر سٹ پٹا گیا۔ ’’وہ… وہ … کچھ نہیں سرکار۔ یہ پوچھنا تھا کہ آپ کون ہو۔ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘۔
میں نے کھا جانے والی نظر وں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہم انوپم لال شرما ہیں…۔ لدھیانے سے آ رہے ہیں اور ہری دوار درشن کے لیے جارہے ہیں۔ اور کچھ پوچھنا ہے تو وہ بھی بتادو!‘‘۔
وہ میرے لہجے کی تلخی سے گھبرا کر بولا۔ ’’نہیں سرکار۔ آپ جا سکتے ہو‘‘۔
اس کے پیچھے ہٹتے ہی ناصر نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اس کے لبوں پر خوش گوار مسکراہٹ تھی۔ ’’میں نے کہا تھا ناں بھائی۔ یہ طریقہ سب سے کارگر رہے گا۔ کسی ذی مرتبہ شخصیت کو دیکھ کر یہ بے چارے ویسے ہی ہمت ہار جاتے ہیں‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے تائید کی۔ جبکہ جمیلہ نے قہقہہ لگا کر سنتری کی حالت کا مذاق اڑایا۔ لگ بھگ بیس منٹ بعد ہم مردان پور قصبے کے پاس سے گزر کر ہریانہ کی حدود میں داخل ہوئے اور مزید پندرہ منٹ بعد انبالے شہر کے پاس سے پہنچ گئے۔ یہاں دوسرے اور نسبتاً بڑے پولیس ناکے نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم نے دیکھا کہ خاصے جوش و خروش سے ہم سے آگے والی گاڑیوں کے مسافروں سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی اور کچھ کی باضابطہ تلاشی بھی لی جارہی تھی۔ میں نے مڑ کر جمیلہ کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چوکنا ہوجانے کو کہا۔ میرا اور اپنا پستول مع اضافی لوڈ میگزین، اس نے لباس میں چھپا رکھے تھے۔ اس نے گردن ہلا کر مجھے مطمئن رہنے کو کہا۔
کچھ دیر انتظار کے بعد ہماری باری بھی آگئی۔ اس بار ایک سنتری کے علاوہ ایک حوالدار نے بھی ہماری گاڑی میں جھانکا۔ میری طرف دیکھے بغیر حوالدار نے ناصر سے ہریانوی زبان میں پوچھا۔ ’’نام کیا ہے مھارے بیر کا؟ تھم کہاں سے آرے ہو، اور کدھر جان کے ارادے ہیں تھارے؟‘‘۔ اس کے لہجے میں اختیار کا طنطنہ صاف سنائی دیا۔
ناصر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں نے بارعب لیکن نرم لہجے میں کہا۔ ’’ڈرائیور سے کیا پوچھ رہے ہیں سرکار۔ ادھر آئیے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں سب کچھ!‘‘۔
حوالدار نے چونک کر مجھے دیکھا۔ چند ہی لمحوں میں اس نے پورا تجزیہ کرلیا۔ لیکن وہ بغیر مزاحمت کے شکست تسلیم کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ گھوم کر میری طرف کھڑکی کی طرف آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سوالات دہراتا۔ میں نے دوستانہ لیکن مستحکم لہجے میں سوال کیا۔ ’’یہ سب کب تک چلتا رہے گا حوالدار جی؟ لدھیانے سے یہاں تک چار جگہ روک کر پوچھ گچھ کی جا چکی ہے۔ آپ لوگ یہ تو دیکھ لیا کریں کہ گاڑی میں کس طرح کے لوگ سوار ہیں۔ سب کو چور ڈاکو سمجھ کر روک لیتے ہو‘‘۔
اس نے گہری نظروں سے مجھے دیکھا۔ وہ مجھ سے اتنے قریب تھا کہ مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ وہ میرا بھیس بھانپ لے گا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے ایک ایک لفظ تول کر کہا۔ ’’سرکار ہمیں بھی کسی عجت دار ہستی کو تنگ کرنے کا کوئی سوق نہیں ہے۔ پر اوپر سے بڑے سکھت آرڈر ہیں۔ جانچ پڑتال کے بغیر کسی گاڑی کو جانے دینے کی اجاجت نہیں ہے۔ بس جو پوچھ رہا ہوں۔ اس کا جواب دے دو، اور اپنے رستے چلے جاؤ‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ بکھیڑا تو ایم پی مٹھو سنگھ کی ہتھیا کے بعد سے چل ہی رہا ہے۔ چلو ٹھیک ہے۔ میں انوپم لال شرما ہوں۔ لدھیانے میں تین چار سو بھیگے نہری زمین اور پانچ چھ باغات ہیں میرے۔ میری بچی بیماری سے اٹھی ہے۔ اسے ہری دوار درشن کے لیے لے جارہا ہوں۔ اور کچھ پوچھنا ہے تو بتا دیں‘‘۔ میرے توجہ دلانے پر حوالدار نے گاڑی کی عقبی سیٹ پر نظر ڈالی۔ جہاں جمیلہ سونے کی اداکاری کرتے ہوئے ہلکے ہلکے خراٹے لے رہی تھی۔ اس مرحلے پر ناصر نے مداخلت کی۔ ’’تلاشی لینی ہے تو امپالا کی ڈگی کھول دوں دروغہ جی؟‘‘۔
اس کی بات سن کر حوالدار نے زور سے گردن نفی میں ہلائی۔ ’’نہیں۔ اس کی جرورت نہیں ہے۔ تھم لوگ جا سکتے ہو‘‘۔
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ناصر گاڑی کو گیئر میں ڈال چکا تھا اور ہم ناکے پر کھڑی گاڑیوں کے پاس سے گزر کر آگے روانہ ہو چکے تھے۔
انبالے کے پاس سے گزرنے کے بعد سڑک پر ٹریفک ہلکا پڑ گیا اور ناصر نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ اتنے طاقت ور انجن والی گاڑی چلانے میں اسے یقیناً مزا آرہا ہوگا۔ جمیلہ بھی خوشی سے چہک رہی تھی۔
اس کے بعد صرف صالح پور نامی قصبے پر ہماری گاڑی کو روکا گیا اور ہم تینوں پر ایک نظر ڈالنے کے بعد دونوں سنتری کچھ پوچھے بغیر پیچھے ہٹ گئے۔ سرسبز کھیتوں کے درمیان لگ بھگ چالیس منٹ کا مزید سفر طے کرنے کے بعد ہمیں ایک بار کسی بڑی آبادی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ میں نے نقشے کا جو مشاہدہ کیا تھا۔ اس کے مطابق ہم عبداللہ پور (موجودہ یمونا نگر) اور جگادھری کے جڑواں قصبوں کے پاس پہنچنے والے تھے۔ صالح پور کے بعد سے اب تک ہمیں پولیس کی کوئی گاڑی دکھائی نہیں دی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میری تلاش کا علاقہ ختم ہوگیا ہے۔
ہم عبداللہ پور کے درمیان سے گزرے تو مجھے دائیں طرف بسوں کا خاصا بڑا اڈا نظر آیا۔ میں نے ناصر کو کہا۔ ’’یار میرا خیال ہے اب ہم خطرے کی حد سے باہر آگئے ہیں۔ ایک گھنٹا مزید خوار ہونے سے بہتر ہے کہ تم مجھے یہیں اتار دو۔ میں کسی بس میں دلّی روانہ ہوجاؤں گا‘‘۔
میری بات سن کر ناصر نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’نہیں بھائی۔ یہاں سے جانے والی سب بسیں پنجاب کی حد میں سفر کرتے ہوئے کرنال اور پانی پت وغیرہ سے ہوکر دلّی پہنچیں گی۔ جانے کتنی جگہ پولیس والے بس میں چڑھیں گے۔ ایک گھنٹے مزید سفر کے بعد سہارن پور سے روانہ ہوں گے تو دلّی تک کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post