نذرالاسلام چودھری
بھارت میں الیکشن قریب آتے ہی دست شناسوں، پنڈتوں، پجاریوں اور تانترکوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ اہم ریاستوں میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدواروں نے جہاں مندروں کی یاترا شروع کردی ہے۔ وہیں ہزاروں امیدوار جوتشیوں کو ہاتھ دکھانے کیلئے منہ مانگی رقوم ادا کررہے ہیں۔ کامیابی کیلئے مخصوص پوجا پاٹھ اور جادو ٹونا کرانے کا بازار بھی گرم ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اس وقت آن لائن پوجا سینٹرز بھی کام کر رہے ہیں اور امیدواروں کی توہم پرستی کا فائدہ اُٹھاکر نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ امیدواروں میں سب سے مقبول ترین پوجا ’’بگلا مکھی پوجا‘‘ہے جو دشمنوں کو شکست دینے اور ان کی سازشوں سے بچائو کیلئے منعقد کی جاتی ہے۔ معروف بھارتی پنڈت شیو کمار کا کہنا ہے کہ ’’بگلا مکھی پوجا‘‘ کے ہزاروں لاکھوں پاٹھ ہریانہ، مدھیا پردیش، اترانچل، اڑیسہ، راجستھان، اتر پردیش، بہار، بنگال، مہاراشٹر، دہلی، جھاڑ کھنڈ، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں منعقد کئے جارہے ہیں۔ مختلف سیاسی امیدوار اس امید پر ’’بگلا مکھی پوجا‘‘ کرا رہے ہیں کہ الیکشن میں ان کو یقینی کامیابی ملے گی۔ بہارسے تعلق رکھنے والے صحافی امر ناتھ تیواڑی نے بتایا ہے کہ ان کی نوائیڈا، دہلی کے شاندار فلیٹ دفتر میں موجود معروف جوشتی سوامی سروابھوت شرانم سے گفتگو ہوئی ہے۔ سوامی کے بقول ان کے پاس معروف سیاسی رہنمائوں کے ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ درجنوں اہم سیاسی رہنمائوں نے اپائنمنٹ لے کر ملاقاتیں بھی کی ہیں اور منہ مانگی فیس ادا کی۔ سوامی سروابھوت شرانم کا کہنا تھا کہ وہ خاص طور پر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ’’بگلا مکھی پوجا‘‘ اور لڑائی میں سرخرو ہونے کیلئے’’شاسترا پوجا‘‘ کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ بہار کے ایک معروف جوتشی امیت کمار کا کہنا ہے کہ الیکشن آتے ہی ان کے پاس سیاسی رہنمائوں کی قطار لگ جاتی ہے۔ سبھی نیتا لوگ منہ مانگی فیس ادا کرتے ہیں۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق توہم پرستوں میں وزیر اعظم نریندر مودی، کانگریس لیڈر راہول گاندھی، ملائم سنگھ یادیو، مایا وتی، ممتا بنر جی اور امیت شاہ نمایاں ہیں۔ مذکورہ سیاسی رہنمائوں نے مشہور و معروف مندروں میں حاضری دی ہے اور لاکھوں روپے بھینٹ میں دیئے ہیں۔ جبکہ درجنوں سیاسی رہنمائوں نے مندروں میں محتاجوں کیلئے کپڑے کے تھان اور خشک راشن کی بوریاں بھی دان کی ہیں۔ تاہم مقصد ان سب کا ایک ہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ لوک سبھا کے الیکشن میں کامیاب ہوجائیں۔ ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندو نیتا (لیڈر) کونسلر شپ کی سطح کا ہو یا ریاستی سطح و قومی سطح کا، اس کیلئے لازم ہے کہ الیکشن کی مہم چلانے سے پہلے لوگوں کے سامنے ناریل پھوڑے، تلک لگائے، مندر میں جا کر ماتھا ٹیکے اوردان دے، کیونکہ اس کے بغیر ہندو ووٹرز اس کو ’’رہنما‘‘ نہیں سمجھتے اور اس کی حب الوطنی اوردھرم سے عقیدت پر سوالیہ نشان لگا ہی رہتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے بھی لکھا ہے کہ مودی کی حکومت کے بعد ’’ہندو توا‘‘ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ دھرم سے کوسوں دور رہنے والے کانگریس کے رہنما اور اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی کو بھی راجستھان، مہاراشٹر، مدھیا پردیش اور اتر پردیش سمیت ہماچل پردیش میں انتخابی مہم دوران مندروں میں جانا پڑگیا ہے، کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما، راہول گاندھی کو مسلمانوں کا ہمدرد کہہ کر پکارتے ہیں۔ لوک سبھا الیکشن کے موقع پر ’’مندر یاترا‘‘ کرنے والے دیگر اہم رہنمائوں میں ارون جیٹلی، ایکھلیش سنگھ یادیو، نتیش کمار اور لالو پرساد یادیو کے بیٹے تیجسوی یادیو سمیت متعدد بی جے پی اور کانگریس امیدوار شامل ہیں۔ بھارتی سیاسی پارٹیوں اور رہنمائوں میں سب سے زیادہ مقبول پنڈت دیواکرجھا ہیں جو ننگ دھڑنگ رہنا پسند کرتے ہی اور الیکشن کی کامیابیوں کیلئے امیدواروں کو ’’نو گھڑا پاٹھ‘‘ کا عمل بتاتے ہیں۔ یعنی الیکشن میں جیتنا ہے تو 9 مندروں میں جا کر ماتھا ٹیکنا پڑے گا۔ اگر اس کام کیلئے امیدوار کے پاس وقت نہیں ہے، تو یہ کام دیواکرجھا خود کردیں گے لیکن اس کیلئے ان کو دس لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بعض پنڈتوں اور پجاریوں کی فیس 20 لاکھ روپے فی امیدوار تک پہنچ چکی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post