اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ نے 33سال پرانےمعاملے میں سابق وزیراعظم نوازشریف سمیت 8ہزارافرادکونوٹس جاری کردیئے۔سپریم کورٹ میں پاکپتن مزار کی زمین پر دکانوں کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔وکیل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اراضی دیوان قطب کی نہیں بلکہ نواز شریف نے 1986 میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب زمین ان کے نام کی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ محکمہ اوقاف کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی، وزیراعلیٰ کو کس نے اختیار دیا کہ اوقاف کی زمین کسی کو دے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کا نام سن کر خواجہ حارث ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، خواجہ صاحب آپ کے دیکھنے کے انداز سے ڈر گیا ہوں۔ چیف جسٹس کی بات پر عدالت کشت زعفران بن گئی۔ دیوان قطب کے وکیل نے کہا کہ حکومتی غلطی کی سزا کسی اور کو کیوں مل رہی ہے؟، جس حکومت نے زمین واپس لی تھی اسی نے پھر نام کی، دیوان قطب نے اراضی آگے فروخت کردی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ نواز شریف سمیت تمام متعلقہ افراد کو نوٹس کریں گے، زمین سے فائدہ اٹھانے والوں سے بھی باز پرس کی جائے گی، اوقاف کی پراپرٹی کسی کو نہیں دی جاسکتی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور سینئر قانون دان افتخار گیلانی کے درمیان گرماگرمی ہوئی ۔چیف جسٹس نے کہاکہ جب سے ان کا آپریشن ہوا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت اور جج ان کے بچے ہیں۔ 29سال قبل محکمہ اوقاف کی اراضی پر دکانیں تعمیر کرنے کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی، اس وقت سیکریٹری اوقاف کون تھا انھیں بھی نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ وہ سیکریٹری صاحب وفات پا چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت نوٹیفکیشن واپس لیا گیا۔ وکیل افتخار گیلانی نے جواب دیا کہ جس اتھارٹی کے تحت مجھ سے جائیداد لی گئی تھی اسی اتھارٹی کے تحت جائیداد واپس بھی دی گئی، 29 سال بعد سپریم کورٹ کہتی ہے کہ نوٹیفکیشن غیر آئینی تھا۔ چیف جسٹس نے سخت غصے میں کہا کہ ہاں سپریم کورٹ یہ کہہ سکتا ہے اور سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے، سپریم کورٹ پاکستان کے آئین کا محافظ ہے۔وکیل افتخار گیلانی نے اونچی آواز میں جواب دیا کہ آئین کے محافظ عوام ہیں، سپریم کورٹ بھی آئین اور قانون کے تابع ہے۔ چیف جسٹس نے سخت لہجے میں کہا کہ آپ اپنی آواز دھیمی کریں اور لہجہ درست کریں۔ وکیل نے کہا کہ میری آواز اور لہجہ ویسا ہی ہوگا جیسا آپ کا۔ وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ میں ایسی صورتحال میں درخواست کروں گا کہ میرے مقدمات اپنے بنچ میں مقرر نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے ہی بنچ میں آپ کے کیسز لگاوٴں گا، آپ جب آتے ہیں عدالت پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔پا کپتن دربار کے ساتھ دکانیں بنانے والے 8ہزار سے زائد افراد کو عدالت نے نوٹس جاری کر دئیے۔