نواز شریف-مریم-صفدر کی عید اڈیالہ میں گزرے گی

0

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی/ مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) محمد صفدر عیدالاضحیٰ جیل میں ہی گزاریں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2ججوں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل بینچ نے ایوان فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ مؤخر کردیا۔ اب عبوری ریلیف کی درخواستیں بھی سزا کالعدم قرار دینے کی اپیلوں کے ساتھ گرمیوں کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد سنی جائیں گی، جس کا مطلب ہے کہ ستمبر کے وسط تک سابق وزیراعظم ان کی بیٹی اور داماد کی رہائی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ واضح رہے کہ گرمیوں کی تعطیلات 11 ستمبر کو ختم ہوں گی۔ پیر کو ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی کے دلائل مکمل ہونے پر فاضل عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد خیال یہی تھا کہ فیصلہ پیر کے روز ہی سنا دیا جائے گا۔ اس لئے نواز شریف کے وکلا عدالت عالیہ میں انتظار کرتے رہے، تاہم شام 7 بجے بتایا گیا کہ شریف خاندان کی سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ اپیلوں کے ساتھ سنایا جائے گا۔ عدالتی اعلامیہ میں موسم گرما کی تعطیلات کے بعد اپیلوں کی سماعت کے ساتھ درخواستوں کو مقرر کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سزا معطلی کے درخواستوں پر مناسب فیصلہ سنائیں گے۔ نوازشریف حقیقی کرپشن سےبری ہوگئے۔ فلیٹس کرپشن کے پیسوں سے نہیں خریدے گئے۔ نیب پراسیکیوٹر نے ٹی وی انٹرویوز کا حوالہ دیا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اس کی تفصیل اپیل میں دیجئے گا۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کے نام پر تھے، ہم نے دستاویزات سے ثابت کردیا کہ ان کمپنیوں کے مالک نواز شریف ہیں اور یہ فلیٹس انہی کی ملکیت میں ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیلسن لمیٹڈ کی ملکیت کسی شخص کی تو نہیں ہے، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ فلیٹس جس کے قبضے میں ہیں کمپنی کا مالک بھی وہی ہوگا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ اپنے آپ کو سزا معطلی تک محدود رکھیں، اس پر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ یہ جائیداد ان کی ملکیت ہے، ایم ایل اے کے ذریعے معلوم ہوا کہ نیلسن اور نیسکول مریم کی ملکیت ہے، دستاویزکے مطابق فلیٹ نمبر 16اے کی ملکیت 31 جولائی 1995 سے نیلسن کے پاس ہے، 2006 میں بینیفشل مالک ہونے کو ظاہر کرنا ضروری تھا۔ عدالت میں پیش کی گئی 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ جسٹس اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 2012 میں یہ خط لکھا کیوں گیا تھا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے نے باہر رجسٹرڈ کمپنیوں سے متعلق معلومات کیلئے عمومی خط لکھا تھا، میں ٹرائل کورٹ میں جمع شدہ دستاویزات کے حوالے دے رہا ہوں۔ جسٹس اورنگزیب نے مزید استفار کیا کہ سپریم کورٹ میں والد نے بچوں کے مؤقف کو اختیار کیا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کی تقاریر میں وضاحتیں دی گئی ہیں کہ جائیدادیں کیسےبنائیں، نوازشریف نے اولاد کے مؤقف کو غلط قرار نہیں دیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دفاع کا کیس ہے ضروری عوامل کی تفتیش نہیں کی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ان کا مؤقف ہے، معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں،12 ملین درہم کی بات بھی درست نہیں ہے، ان کا ذریعہ بھی ہم نے غلط ثابت کیا اورمعلوم ذرائع آمدن کا ثبوت بھی لائے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ وہ معلوم ذرائع آمدن کیا ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ وہ معلوم ذرائع آمدن فلو چارٹ ہیں، جسٹس اطہر نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ سردار مظفر نے کہا کہ میں آپ کو1980 کا جعلی معاہدہ دکھانا چاہتا ہوں۔اس موقع پر انہوں نے معاہدے سے متعلق جےآئی ٹی رپورٹ کی تفصیلات سنائیں۔ایک اور موقع پر عدالت کے سوال کے جواب میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے حوالہ دیا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ سن چکی ہے۔ جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ پھر ٹرائل کورٹ (نیب عدالت) کا کیا کام تھا؟ صرف سزا پر مہر لگانا؟۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے کہا کہ نہیں سر، لیکن وہ سپریم کورٹ سر۔ جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم یہاں صرف ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ جو ٹرائل کورٹ میں ہوا وہ بتائیں، سپریم کورٹ نے نتیجہ نہیں نکالا ،معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا، ہمیں اب صرف اسی کا نتیجہ دیکھنا ہے۔نیب نے عدالت سے استدعا کی کہ نواز شریف اور دیگر ملزمان کو جیل میں ہی رکھا جائے اور سزا معطل کرنے کی درخواست خارج کی جائے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ابھی کوئی فیصلہ فریقین کو متاثر کرسکتا ہے، عام تعطیلات کے بعد یہ درخواستیں اپیل کے ساتھ سن لیتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ کو وہ مشورہ دیں گے جو آپ کے حق میں ہو، فیصلہ لکھتے ہوئے ہم نے وجوہات لکھنی ہیں، آپ کے فائدے میں ہے ان درخواستوں کو زیر التوا رہنے دیں۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) احتساب عدالت نے نوازشریف کی دونوں نیب ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ سنانے کی استدعا منظور کر لی اور سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نواز شریف کیخلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنسز کی سماعت کی، نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث، نیب پراسیکیوٹر اور استغاثہ کے گواہ محبوب عالم پیش ہوئے، لیکن جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا وقت پر نہ پہنچ سکے۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت نمبر 1نے بھی تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ سنانے کا فیصلہ کیا تھا، مگر عدالت نے صرف ایوان فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنایا۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ نہ آنے کے باعث دیگر 2ریفرنسز اس عدالت منتقل ہوئے۔ ابھی میں نے ہائیکورٹ جانا ہے، وہاں سے یہاں واپسی ممکن نہیں، آج مصروف ہوں واجد ضیا پر جرح نہیں کر سکتا۔احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کہا کہ واجد ضیا کہاں ہیں، ابھی تک پیش نہیں ہوئے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ واجد ضیا راستے میں ہیں اور ریکارڈ لے کر آرہے ہیں۔ جج احتساب عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر واجد ضیا پر جرح کی جائے گی، جرح مکمل ہونے کے بعد فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیا کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More