کراچی (رپورٹ: رفیق بلوچ) واٹر بورڈ کی جانب سے سیوریج پمپ نہ چلائے جانے سے لیاری جوہڑ بن گیا، جس کے باعث سڑکیں اور گلیاں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں۔ سیوریج کے پمپنگ اسٹیشنوں کے مسلسل فیل ہونے سے گٹروں کا پانی ناصرف شاہراہوں، بلکہ گھروں میں داخل بھی ہورہا ہے۔ لیاری کے مکینوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پینے کے پانی میں سیوریج پانی کی آمیزش کی شکایت لیاری کی تقریباً تمام یوسیز میں پائی جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے دوران سیوریج پمپوں کو ڈیزل پر چلانے کے بجائے جان بوجھ کر بند رکھا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہزاروں لیٹر ڈیزل کو پمپنگ اسٹیشنوں کے ذمہ داران فروخت کررہے ہیں۔ پمپوں کے نہ چلانے سے سیوریج کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ لیاری کے 60فیصد مکین پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ لیاری کے ٹیل پر واقع یوسی نمبر1 سے 10کے مکین پانی کے حصول کیلئے شب و روز سرگرداں ہیں۔ خاص طور پر مذکورہ علاقوں کی خواتین اور بچے اپنے برتنوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب واٹر بورڈ ملازمین کی جانب سے لیاری کا پانی قرب و جوار کے علاقوں کو فراہم کیا جارہا ہے، جبکہ صنعتی علاقوں کے علاوہ لیاری کے دھوبی گھاٹ کو بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ واٹر بورڈ کا کرپٹ عملہ صنعت کاروں، دھوبیوں اور قالین فیکٹریوں کے مالکان سے ماہانہ لاکھوں روپے رشوت کی صورت میں وصول کررہا ہے۔ ذرائع کے مطابق سیوریج اسٹیشنوں میں نصب عمودی پمپوں کو چلانے کے بجائے ”سمر“ پمپوں کو چلایا جارہا ہے، جبکہ یہ پمپ نکاسی آب کو بہتر نہیں کرسکتے۔ یونین کمیٹی نمبر8 کلری کے چیئرمین عبدالمجید بلوچ نے بتایا کہ غلط منصوبہ بندی اور پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لیاری میں پانی کا مسئلہ برسوں سے جوں کا توں ہے۔ حالیہ جنرل الیکشن سے قبل انہوں نے اپنے حلقہ میں فراہمی آب کی ایک پرانی لائن تبدیل کرانے کیلئے سابق ایم پی اے فنڈز سے کام شروع کیا۔ مرزا آدم خان روڈ سے 24انچ قطر کی پرانی مخدوش پائپ لائن کی جگہ نئی لوہے کی پائپ لائن ڈالنی شروع کی تو علاقہ کی بلڈرز مافیا نے یوسی نمبر1 اور یوسی نمبر 2کے رہائشیوں کو اکسایا کہ ان کا پانی چوری کیا جارہا ہے۔ انہوں نے احتجاج کراکے کام کو رکوا دیا، حالانکہ یہ نئی لائن نہیں تھی، بلکہ پرانی ناکارہ لائن کی تبدیلی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس اسکیم پر ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہونے تھے۔ لوہے کے پائپ آج بھی علاقے میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس اسکیم سے یوسی 8لیاری کے رحیم آباد، بیجر محلہ، بیڑ محلہ، سومرہ محلہ، مندرہ محلہ اور اردگرد کے علاقوں کے عوام کو پینے کا پانی ملنا تھا۔ جس سے وہ تاحال محروم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لیاری میں سیوریج کا نظام پمپنگ اسٹیشنوں کا مرہون منت ہے۔ یوسی نمبر14کے چیئرمین عبدالغفور بلوچ، یوسی نمبر13کے چیئرمین عبدالستار بلوچ، یوسی نمبر15کے چیئرمین حاجی حسن بلوچ، یوسی نمبر16کے چیئرمین فہیم بلوچ، یوسی نمبر7 کے چیئرمین عاشق حسین نے بھی لیاری میں سیوریج کے نظام کی تباہی کا ذمہ دار واٹر بورڈ کو قرار دیا ہے، انہوں نے بتایا کہ لیاری کی سب سے بڑے پمپنگ اسٹیشن جمیلہ، میراں ناکہ اور چاکیواڑہ پمپنگ اسٹیشن کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال واٹر بورڈ کے بجٹ میں پمپنگ اسٹیشنوں کے لیے کروڑوں روپے مختص کیے جاتے ہیں، لیکن یہ رقم صحیح خرچ کرنے کے بجائے کرپشن کی نذر ہورہی ہے۔ اس حوالے سے واٹر بورڈ کے ذمہ داروں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ لیاری میں فراہمی و نکاسی آب کا مسئلہ دیرینہ ہے۔ مختلف حکومتوں کے دور میں اس مسئلے کو حل کرانے کیلئے کوششیں کی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ لیاری شہر کے ٹیل پر واقع ہے۔ جہاں تک پہنچتے پہنچتے پانی کا پریشر انتہائی کم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے لیاری کے عوام کو شکایت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لیاری میں سیوریج کا نظام پمپنگ اسٹیشنوں سے وابستہ ہے۔ پمپنگ اسٹیشن پرانے ہوچکے ہیں۔ ان میں نئے پمپوں کی اشد ضرورت ہے۔