عمران خان
کراچی اور ملک کے بڑے شہروں میں عطر اور نان الکحلک پرفیومز کی فروخت میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ عالمی سطح پر متعارف ہونے والے برانڈڈ پرفیومز، ڈیمانڈ پر تین ماہ کے اندر نان الکحلک شکل میں مقامی مارکیٹ میں بھی دستیاب ہوتے ہیں جو 400 روپے فی تولہ تک فروخت کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت نان الکحلک پرفیومز کی 10 مقبول ترین خوشبوئوں میں ڈن ہل ڈیزائر، ون مین شو، کیرولینا، چارلی، پروفیسی، بروٹ، سی کے، پوائزن، لیباڈر، ارمانی، ہرامس اور ڈن ہل وغیرہ شامل ہیں۔ ان خوشبوئوں کے ایک تولہ سے 100 ملی لیٹر کی مقدار میں نان الکحلک پرفیوم بن جاتا ہے۔ نان الکحلک پرفیومز بنانے کیلئے پاکستانی امپورٹرز فرانس، جرمنی اور چین میں قائم پرفیوم کمپنیوں سے ہر معروف اور نئے برانڈ کے پرفیومز کی کاپی بنواتے ہیں۔ ان کی قیمت، کوالٹی اور میچنگ کے حساب سے ہوتی ہے۔ یعنی 60 سے 70 فیصد میچنگ خوشبو کی کاپی 10 ہزار روپے اور 70 سے 80 فیصد تک میچ ہونے والی خوشبو کی کاپی 13 ہزار روپے فی لیٹر تک آتی ہے۔ اس خالص خوشبو میں الکحل کے بجائے تیل کی بنیاد کے ساتھ الڈاہائیڈ، الکنال اور کیٹون نامی کیمیکلز ملا کر پرفیومز تیار کئے جاتے ہیں۔ عموماً یہ مکسچر بھی امپورٹ ہی کیا جاتا ہے، جو کسی قسم کی خوشبو کا حامل نہیں ہوتا۔ تاہم صرف مخصوص امپورٹرز جو شہر میں بڑی دکانیں چلاتے ہیں، وہی اس کا خام مال منگوا کر اپنا مٹیریل تیار کرتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے کیمسٹ موجود ہیں۔
مارکیٹ سروے کے دوران معلوم ہوا ہے کہ عطریات کے شوقین شہریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم دیسی عطریات جن میں گلاب، صندل، موتیا اور چنبیلی وغیرہ شامل ہیں کے شوقین اب مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ جبکہ ان دیسی عطریات کی جگہ عریبین فریگرینس یعنی عربی عطریات زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ ان میں عود اور مشک وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان عطریات کی بڑی فیکٹریاں متحدہ عرب امارات میں ہیں، جہاں سے پورے عالم اسلام میں ان کی سپلائی کی جا رہی ہے۔ کراچی کے قدیم عطر فروشوں کے مطابق اس وقت بھی عود، مشک، خس، زعفران اور عنبر سب سے مقبول عطر ہیں۔ ان کے مختلف برانڈ پاکستانی اور عرب کمپنیاں تیار کر کے مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں۔
کراچی کے علاقے برنس روڈ سے ملحقہ جامع کلاتھ کے سامنے کراچی کی سب سے قدیم عطر فروشوں کی دکانیں موجود ہیں جو قیام پاکستان سے اب تک خوشبوئوں کے شوقین افراد کیلئے خریداری کے مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں۔’’قنوج عطر‘‘ کے نام سے واقع دکان کے حوالے سے معلوم ہوا کہ یہ کراچی میں عطر فروخت کرنے والی سب سے پہلی دکان ہے جو 1948ء میں قائم ہوئی۔ یہاں پر واقع دیگر معروف عطر فروشوں میں سعید غنی، الہاشمی، انشاء اللہ، ماشاء اللہ، نفیس اور شمیم عطر شامل ہیں۔
قنوج عطر کے مالک انور رئیس انصاری 50 برس سے اس کام سے وابستہ ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں وہ صرف روایتی مشرقی عطریات ہی کا کام کرتے تھے۔ کیونکہ زیادہ تر شہری دیسی عطر شوق سے استعمال کرتے تھے اور انہیں خالص اور اصل عطر کی پہچان بھی تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ غیر ملکی برانڈڈ پرفیومز مقبول ہوتے چلے گئے۔ لیکن ان میں ایک قباحت ہوتی ہے کہ الکحل کی وجہ سے یہ پرفیومز لگا کر نماز نہیں پڑھ سکتے۔ جس کی وجہ سے مذہبی رجحان رکھنے والا طبقہ عطریات ہی استعمال کرتا رہا۔ مگر نئے زمانے کے برانڈڈ پرفیومز بھی شہریوں کو اچھے لگتے تھے۔ اس لئے نماز کی ادائیگی کے وقت عطر استعمال کئے جاتے اور پارٹیوں اور ملنے جلنے میں پرفیومز کا استعمال کیا جاتا۔ یہ ایک دشوار عمل تھا، تاہم خوشبو استعمال کرنے کے دلدادہ افراد یہ مشکل اٹھاتے تھے۔ چونکہ 90 فیصد پرفیومز فرانس اور جرمنی کی کمپنیاں بنا رہی تھیں، اس لئے انہیں معلوم تھا کہ اس ایک نکتے کی وجہ سے وہ عرب ممالک سمیت اسلامی دنیا کے ملکوں میں موجود ایک بہت بڑی مارکیٹ کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کمپنیوں نے نان الکحلک پرفیوم بنانا شروع کیا۔ اس کام میں 1980ء کے بعد سے زیادہ تیزی آئی۔ ابتدائی برسوں میں پاکستان میں ایک آدھ ہی ایسا امپورٹرتھا جو فرانس اور جرمنی وغیرہ سے برانڈڈ پرفیومز کی خوشبو کلو کے حساب سے منگوا کر انہیں بغیر مہک اور خوشبو والے کیمیکل اور تیل کے ’’بیس‘‘ کے ساتھ ملا کر نان الکحلک پرفیومز بناتا تھا۔ زیادہ تر تاجر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی اور بھارت سے تیار شدہ نان الکحلک پرفیومز منگوایا کرتے تھے۔ تاہم اب عالم یہ ہے کہ کراچی اور لاہور سے تعلق رکھنے والے درجنوں امپورٹرز براہ راست فرانس، جرمنی اور چین میں موجود برانڈڈ کمپنیوں کی سسٹرز یعنی ذیلی کمپنیوں سے ان کے تیار کردہ برانڈ کے پرفیومز کی خوشبو تیار کرواکر ملک میں لارہے ہیں اور انہیں خود ہی پرفیومز کے کیمیکل اور تیل کے ’’بیس ‘‘ کے ساتھ ملا کر نان الکحلک پرفیومز تیار کر رہے ہیں۔ انور رئیس انصاری کا مزید کہنا تھا کہ دیسی عطر کی مانگ اب بہت کم رہ گئی ہے۔ کیونکہ اس کی پہچان پہلے والے لوگوں کو خوب ہوا کرتی تھی، تاہم اب نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ گلاب، موتیا، چمبیلی اور صندل کے عطر سستے ہوتے ہیں۔ تاہم ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ 10ہزار کلو گرام پھولوں سے 10تولہ عطر بنتا ہے۔ یعنی گلاب اور موتیا کا عطر اصل حالت میں 40 ہزار روپے تولہ ہے۔ اسی طرح سے اصل عربین دیسی عطر جس میں عود وغیرہ شامل ہے وہ 1 لاکھ 80 ہزار روپے تولہ ہے۔ تاہم متوسط طبقے کیلئے ان کی خریداری ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ طبقہ کیمیکل ملے ہوئے عود، مشک، عنبر، صندل کے عطر استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے، جن میں خوشبو وہی ہوتی ہے تاہم یہ خالص نہیں ہوتے۔ یہ بھی اس وقت 2 ہزار سے 5 ہزار روپے تولہ ہیں۔ کچھ دکاندار تیسرے اور چوتھے نمبر کی کوالٹی 500 روپے تولہ میں بھی دے دیتے ہیں۔
’’خوشبو‘‘ عطر فروش کی دکان پر موجود امین الرشید کا کہنا تھا کہ عطر اور پرفیومز کے استعمال میں موسم کا بڑا عمل دخل ہے۔ جو لوگ شوقین ہوتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ عطر یات گرمی اور سردی کے لحاظ سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گرمیوں کے موسم میں پھولوں سے بنے عطر یعنی گلاب، موتیا، صندل اور عنبر وغیرہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ جبکہ سردیوں میں عود، مشک اور خس وغیرہ زیادہ خریدے جاتے ہیں، کیونکہ ان کی تاثیر گرم ہوتی ہے۔
شمیم عطر ہائوس نامی دکان پر موجود شرجیل نے بتایا کہ گزشتہ 10 برس میں نان الکحلک پرفیومز اور عطر کے بڑھتے ہوئے رجحان سے اس کی فروخت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سعید غنی نامی دکان پر موجود صاحب کا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام معروف برانڈز کا نان الکحلک پرفیوم کراچی میں دستیاب ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post