نذر الاسلام چودھری
بھارتی ریاست اتر پردیش میں انتہا پسند ہندوؤں نے نجی عدالتیں بنا لیں۔ متعصب وزیر اعلیٰ یوگی نے ہندوؤں کو ’’ہندو مہا سبھا‘‘ کے تحت قائم کی جانے والی عدالتوں میں جانے کی ہدایت کر دی ہے۔ ہندو عدالتوں کی چیف جسٹس ایک ایسی خاتون کو بنایا گیا ہے جو کانگریس کے بانی موہن داس گاندھی کی سخت مخالف ہیں۔ جبکہ خود ساختہ عدالتوں کے قیام کا نوٹس لینے کے بجائے بھارت کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس خاموش تماشائی بن گئیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتر پردیش حکومت کی سرپرستی میں بھارت کے چار شہروں میں انتہا پسند ہندوئوں نے متوازی ہندو عدالتیں قائم کرلی ہیں۔ ہندوئوں کو عام عدالتوں میں جانے سے اجتناب برتنے کی ہدایت کردی گئی۔ ہندو مہا سبھا کے تحت قائم کی جانے والی عدالتوں میں قید اور جرمانے کے ساتھ ساتھ سزائے موت دیئے جانے کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ کے گرین سگنل کے بعد بھارت بھر کے ہندو شہریوں کو ان عدالتوں میں ہی اپنے مقدمات لانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ہندو مہا سبھا کے قومی صدر چندر پرکاش کوشک کا کہنا ہے کہ ہمیں فخر ہے کہ ہماری تنظیم نے ہندو عدالتیں قائم کرلی ہیں۔ یہ اچھا اقدام ہے جس سے دیش میں موجود ہندوئوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ آن لائن بھارتی جریدے کوئنٹ نے بتایا ہے کہ ہندو مہا سبھا کے نائب قومی صدر اشوک شرما نے ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ ہندو عدالتوں کا قیام ابتدائی طور پر الہ آباد، ہاتھرس، میرٹھ اور علی گڑھ میں عمل میں لایا جاچکا ہے، جس کی پہلی چیف جسٹس کے بطور ہندو انتہا پسند رہنما ڈاکٹر پوجا شگون پانڈے کو مقرر کردیا گیا ہے۔ اپنے میڈیا سے پہلے پہل انٹرویو میں ہندو مہا سبھا کی پہلی چیف جسٹس ڈاکٹر پوجا شگون پانڈے نے دو ٹوک الفاظ میں گاندھی کو بھارت اور دھرم کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ گاندھی کے دور میں زندہ ہوتیں تو نتھو رام گوڈسے کے بجائے خود آگے بڑھ کر انہیں قتل کردیتیں۔ ڈاکٹر پوجا شگون پانڈے کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک اکھنڈ ہندو ریاست تھا اور رہے گا۔ نتھو رام گوڈسے ہمارا روز اول سے آئیڈیل تھا اور ہندو مہا سبھا سمیت عدالتوں کا قیام اسی فکر کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ہندو مہا سبھا 15 اگست کو بھارت کے ’’یوم آزادی‘‘کی خوشیاں منانے کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناتی ہے اور امسال بھی ہندو مہا سبھا کے تحت یوم سیاہ منایا گیا ہے۔ بھارتی جریدے ٹیلیگراف انڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندو مہا سبھا کی عدالتوں میں قائم کئے جانے والے عدالتی نظام میں ہندو خواتین اور لڑکیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جانب سے ’’لو جہاد‘‘ کی اطلاعات پر فوری اس عدالت کو مطلع کریں تاکہ اس کی جانب سے مقرر کئے جانے والے سیکورٹی اہلکار فوری ایکشن لیں گے اور گائے کے اغو ا، ذبیحہ سمیت گائے کی خرید و فروخت اور بیف تجارت کو روکنے کیلئے اپنا فریضہ انجام دیتے ہوئے ’’گئو ماتا کی شان میں گستاخی کرنے والے تمام مجرموں‘‘ کو گرفتار کریں گے اور ’’ہندو مہا سبھا عدالتوں‘‘ میں سرسری سماعت کے بعد سزا کے حق دار ٹھیرائے جائیں گے۔ ان افراد کو نجی جیلوں میں قید رکھنے، کوڑے مارنے اور حتیٰ کہ سنگین جرائم پر ان کو سزائے موت بھی دی جائے گی۔ واضح رہے کہ یہ اہلکار یا ملیشیا ہندو مہا سبھا کیلئے بھرتی کئے ہوئے ہوں گے۔ ہندو عدالتوں کے قیام کے بارے میں بھارتی لکھاری پربھو کمار دیو آنند نے بتایا ہے کہ ہندو مہا سبھا کی عدالتیں ہندو معاشرے میں موجود تفریق کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی ہیں جس میں اونچی ذات والوں کیخلاف نچلی ذات والوں کا کوئی دعویٰ سنا نہیں جاسکے گا، جبکہ انہی عدالتوں میں مقامی مسلمانوں کی جانب سے ہندوئوں کیخلاف کوئی دعویٰ سنا نہیں جائے گا۔ ہندو عدالتیں دو نظام میں بٹی ہوئی ہوں گی اور ٹھاکروں اور برہمن حضرات کیلئے الگ عدالتیں ہوں گی، جو آریہ سماج کے تحت اونچی ذات والوں کے حقوق کا تحفظ کریں گی اور ان عدالتوں میں ٹھاکروں اور برہمن ذات والوں کیخلاف چھوٹی یا نیچ ذات والوں کے کسی مقدمہ کی سماعت نہیں ہوسکے گی۔ ٹھاکر اور برہمن کمیونٹی کی جانب سے نچلی ذات کی دلت کمیونٹی کیخلاف کی جانے والی کوئی بھی شکایت اس فورم پر ترجیحی بنیاد پر سنی جائے گی اور دیوانی عدالتوں کے ساتھ ساتھ باہمی نزاعات کو آپسی بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی صلاح دی جائے گی۔ البتہ ہندو مسلم تنازع کی صورت میں کیس کو باقاعدہ طور پر سنا جائے گا۔ ادھر ہندو مہا سبھا عدالتی نظام کی پہلی چیف جسٹس ڈاکٹر ’’پوجا شکن پانڈے کے زہریلے انٹرویو پر بھارتی حکومت، وزارت داخلہ سمیت پولیس اور سیکورٹی اداروں نے چُپ سادھ لی ہے۔ دوسری جانب مسلم کمیونٹی میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ ہندو مہا سبھا، بجرنگ دل، ہندو سناتھن سنستھا، ہندو رنویر سینا سمیت متعدد انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ ہندو عدالتیں ہندوئوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا ناطقہ بھی بندکرنے کا کام کریں گی اور بالخصوص گائے کے ذبیحہ اور مسلمانوںکی جانب سے گائے کی تجارت کو روکنے، کھلے عام نماز کی ادائیگی پر پابندی سمیت لوو جہاد، تین طلاق پر مکمل پابندی اور ایک سے زیادہ شادیوں کے معاملات پر فوکس کرے گی۔ ایک ہندو مذہبی رہنما نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں شرعی عدالتیں قائم کی جاسکتی ہیں تو ہندو عدالتوں پر کیوں اعتراض کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی عدالت عظمیٰ نے مودی حکومت کے قیام کے محض دو ماہ کے اندر سال2014 میں شرعی عدالتوں اور دار الافتا کے فتاویٰ کے اطلاق کے احکامات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ مسلمانوں کی شرعی عدالتیں غیر قانونی ہیں اور وہ بھارتی عدلیہ کے متوازی کام کررہی ہیں، لیکن دار العلوم دیو بند کی جانب سے وضاحت کردی گئی تھی کہ قاضیوں اور علمائے کرام کے جن شرعی اور فتاویٰ فورمزکو بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے شرعی عدالتیں سمجھا جارہا ہے وہ کوئی شرعی عدالتیں یا متوازی نظام انصاف نہیں ہے، بلکہ وہ فریقیں کا طلاق، نکاح اور عائلی نزاعات کے حل کیلئے سہولیات اور شرعی بنیاد فراہم کرتے ہیں اور اگر کوئی فریق ان سے متفق نہیں ہوتا تو سول کورٹس جانے کیلئے آزاد ہوتا ہے اس لئے بھارتی نظام انصاف اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post