عظمت علی رحمانی
اس بار عیدالاضحیٰ پر ملک بھر میں 35 لاکھ گائے اور بیل، 30 لاکھ بکروں اور 10 لاکھ دنبوں کی قربانی کی گئی ہے۔ تاہم کھالوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے سبب مدارس کو معاشی نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں ٹینری صنعت میں کھپت کم ہونے سے کراچی میں پانچ برس کے دوران چمڑے کی فیکڑیاں 70 سے کم ہو کر 30 رہ گئی ہیں۔ ادھر جنوبی پنجاب میں ایک درجن سے زائد مدارس اور سندھ میں بھی متعدد مدارس انتطامیہ کے خلاف کھالیں جمع کرنے پر مقدمات و پکڑ دھکڑ کی گئی ہے۔
دنیا بھر میں چمڑے کی مصنوعات میں نمایاں کمی دینی و رفاہی اداروں کیلئے نیک شگون نہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں چمڑے کی کھپت کا ایک بڑا ذریعہ جوتا سازی ہے۔ تاہم چند برسوں سے چمڑے کے جوتوں کے بجائے کینوس، کپڑے اور دیگر مٹیریل سے بنے جوتوں نے لے لی ہے۔ بچوں نوجوانوں میں فینسی، جوگرز، ٹینس، نائیکی سمیت دیگر اسپورٹس جوتے مقبول ہوتے جارہے ہیں۔ جبکہ چمڑے کی جیکٹوں کی مانگ میں بھی کمی آئی ہے کہ اصل لیدر سے بنی جیکٹیں مہنگی ہوتی ہیں۔ ان کی جگہ اب چین کے آرٹیفیشل چمڑے اور دیگر مٹیریل سے بنی جیکٹیں رائج ہو رہی ہیں۔ ٹینری انڈسٹری کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف کراچی میں گزشتہ پانچ برس کے دوران چمڑے کی فیکڑیاں و کارخانے 70 سے کم ہو کر 30 رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ چند برسوں سے یورپ، امریکا اور دیگر مغربی میں بھی چمڑے کی صنعت کو مندی کا سامنا ہے۔ ان ممالک میں چمڑے کا اسٹاک پہلے سے موجود ہے، جس کی وجہ سے ڈیماند میں کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چمڑے کے ایکسپورٹ میں بھی کمی آئی ہے۔
پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں مجموعی طور پر عیدالاضحی پر 30 لاکھ گائے،30 لاکھ بکرے اور 10 لاکھ دنبے قربان کئے گئے تھے۔ جبکہ اس بار 35 لاکھ کے لگ بھگ گائے و بیل کی قربانی، 30 سے 32 لاکھ بکروں اور 8 سے 10 لاکھ دنبوں کی قربانی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس گائے کی کھال کی قیمت دو سے ڈھائی ہزار روپے تک تھی۔ جبکہ امسال اس کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جو 1500 روپے تک ہے۔ گزشتہ برس بکرے کی کھال کی قیمت ڈھائی سو روپے تھی، اس بار بھی ڈھائی سو سے 300 روپے تک ہے۔ دنبے کی کھال کی قیمت 100 روپے تھی اور اب بھی یہی قیمت ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ کھالیں دینی مدارس کو دی جاتی ہیں۔ جن سے دینی مدارس کا مہینوں تک نظام چلایا جاتا ہے۔ تاہم امسال کھالوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے دینی مدارس کو سخت معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے متعدد دینی مدارس کو کھالیں جمع بھی نہیں کرنے دی گئیں۔ اس حوالے سے دینی مدارس کی سب سے بڑی تنظیم وفا ق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا انوار الحق، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا محمد حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ قربانی کی کھالیں جمع کرنے والوں پر یلغار افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ مدارس کے بچوں کے خلاف ہونے والی پولیس گردی نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے مدارس کے حوالے سے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بہاولپور سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں پولیس اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی مدارس کے طلبہ پر یلغار، کیمپ اکھاڑنے، علما و طلبا کی گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج نے ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کی ہے، جس کے خلاف راست اقدام کا حق محفوظ رکھتے ہوئے جلد لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ وفا ق المدارس جنوبی پنجاب کے مسئول مولانا محمد زبیر کاکہنا ہے کہ ’’دینی مدارس کی انتظامیہ کیلئے 2015ء سے کھالیں جمع کرنے کیلئے اجازت نامہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ 3 برس بعد اب اجتماعی قربانی پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے۔ متعدد مدارس کے اساتذہ لاپتہ ہیں۔ جن مدارس کو کھالیں جمع کرنے کی اجازت دی گئی، بعد ازاں ان پر بھی چھاپے مارے گئے اور انتظامیہ پر دہشت گردی کے پرچے کاٹے گئے۔ ان کارروائیوں کا مقصود مدارس کو تنگ کرنا ہے۔ حکومت پنجاب نے مدارس دینیہ کے لاکھوں طلبہ کے منہ سے نوالہ چھیننے کیلئے متعدد مدارس دینیہ کو قربانی کی کھالیں جمع کرنے سے باقاعدہ روکا ہے‘‘۔ ایک سوال پر مولانا زبیر کا کہنا تھا کہ ’’مدارس کی درخواستوں کو یہ کہہ کر مسترد کیا گیا کہ ان کے دہشت گردوں سے روابط ہیں۔ لیکن درحقیقت مدارس کے متعلق بنائے گئے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے صوبہ بھر کے مدارس میں شدید غم و غصہ اور اضطراب کی کیفیت ہے۔ ہوم ڈیپارٹ منٹ والے کہتے ہیں کہ سی ٹی ڈی اجازت میں رکاوٹ ہے اور سی ٹی ڈی والے ہوم ڈیپارٹمنٹ والوں کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ جن مدارس کو کھالیں جمع کرنے سے روکا گیا ہے، ان میں ہزاروں طلبا و طالبات مفت دینی و عصری علوم حاصل کررہے ہیں۔ جن مدارس پرچے درج کئے گئے ہیں، ان میں جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا، جامعہ حسینیہ دینہ جہلم، جامعہ امدادیہ فیصل آباد، جامعہ دارالقرآن فیصل آباد، جامعہ قاسمیہ بہاولپور، جامعہ فاروق اعظم فیصل آباد، دارالعلوم ربانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، جامعہ مدنیہ بہاولپور، جامعہ اسعد بن زرارہ بہاولپور، جنوبی پبجاب میں دارالعلوم کبیر والا، دارالعلوم رحیمیہ ملتان، جامعہ اشرف المدارس قاسمیہ سمیت دیگر مدارس شامل ہیں۔
کھالوں کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین گلزار فیروز کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کی جانب سے ہماری سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس سمیت اربوں روپے ری بیٹس کی مد میں پڑے ہیں۔ جو دو دو سال سے ادا نہیں کئے جارہے۔ دوسری جانب چمڑے کی صنعت میں مسلسل مندی کا رحجان ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں چمڑے کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، کیونکہ پہلے سے موجود اسٹاک ختم نہیں ہوا۔ جب اسٹاک ہوگا اور آگے کھپت نہیں ہوگی تو عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گرنا شرو ع ہو جاتی ہیں‘‘۔ دھوراجی میمن ایسوسی ایشن کے صدر افضل چامڑیا کا کہنا ہے کہ ’’ہماری ایسوسی ایشن ہر سال لگ بھگ 1500 سے 2 ہزار بڑی کھالیں اور اتنی ہی تعداد میں چھوٹی کھالیں جمع کرتی تھی۔ 3 برس قبل گائے و بیل کی کھال کی قیت 3 ہزار سے 3500 روپے تک تھی۔ جبکہ اب 1500 سے 17 سو تک رہ گئی ہے۔ کھالوں سے ہونے والی آمدنی کو میمن ایسوسی ایشن تعلیمی سلسلوں میں خرچ کرتی تھی۔ ظاہر ہے اب کھالوں کی تعداد تو اتنی ہی ہے، مگر قیمتیں کم ہونے سے کاموں پر فرق پڑے گا‘‘۔
الخدمت کے کنٹرولر کمیونٹی سروس قاضی سید صدرالدین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’کھالوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں چمڑے کی مصنوعات کے بجائے اب آرٹیفیشل مصنوعات آرہی ہیں۔ دوسری بڑی وجہ پاکستان میں یہ ہے کہ یہاں کی حکومت چمڑے کے ایکسپورٹرز کو سہولیات اور سبسڈی نہیں دے رہی، جس کی وجہ سے یہاں سے ایکسپوٹرز مال نہیں اٹھاتا۔ اگر حکومت ٹینری صنعت سے وابستہ افراد کو سہولیات دے تو یہ مارکیٹ پاکستان کو زر مبادلہ کما کر دے سکتی ہے۔ کیونکہ یہاں کے بنے ہوئے فٹ بال دنیا بھر میں مشہور ہیں‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’الخدمت کو ملنے والی کھالوں میں گزشتہ 3 برس سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس سال بھی 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس اضافے سے کسی قسم کا فرق نہیں پڑے گا کہ کھالوں کی قیمتیں بہت کم ہو گئی ہیں‘‘۔
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے چیف آپریٹگ آفیسر محمد غزال کا کہنا ہے کہ ’’حکومت ہر اچھا کام کرنے والے ادارے کے ساتھ تعاون نہیں کرتی، جس کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑرہے ہیں کہ کھالوں کی قیمتیں کم ہو کر نصف ہو گئی ہیں۔ چونکہ رفاہی اداروں کا زیادہ دارو مدار ان کھالوں پر ہی ہوتا ہے، اس لئے رفاہی کام متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’الحمد للہ سیلانی ویلفیئر ہر سال 10 ہزار کے قریب ملک بھر سے چھوٹی بڑی کھالیں جمع کرتا ہے۔ تاہم کھالوں کی نمایاں قیمت میں کمی سے چھوٹے اداروں کا نقصان ہوگا، جس کی وجہ سے خیر کے کاموں میں فرق پڑے گا۔
چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے بانی و سربراہ رمضان چھیپا نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہم نے زیادہ سے زیادہ 3500 روپے تک گائے و بیل کی کھال فروخت کی ہے، جبکہ اب وہی کھال ایک ہزار میں لی جارہی ہے۔ ہم ٹینری کے کسی بھی مالک سے بات کرتے ہیں تو وہ کھال لینے کیلئے تیار نہیں۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس پہلے والی کھالوں کا بھی اسٹاک موجود ہے‘‘۔ رمضان چھیپا نے بتایا کہ عوام کی جانب سے ہر سال چھیپا کو لگ بھگ 6 سے 7 ہزار چھوٹی بڑی کھالیں دی جاتی ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ ’’کھالوں کی قیمتوں میں کمی کی بڑی وجہ یورپ کے اندرونی حالات ہیں۔ یورپ کھالوں کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے اور سب سے زیادہ کھالیں وہیں ایکسپورٹ ہوتی تھیں۔ یورپ کی قوت خرید گر گئی ہے۔ اس لئے کھالیں سستی ہو گئی ہیں‘‘۔ ایدھی فاؤنڈیشن کو گزشتہ برس 12 ہزار چھوٹی بڑی کھالیں ملی تھیں۔ اس سال دو روز کے دوران 10 ہزار کھالیں جمع ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) پر پابندی کی وجہ سے وہ اس سال کھالیں جمع نہیں کر سکی ہے۔
٭٭٭٭٭