کراچی ( رپورٹ : سید نبیل اختر ) قربانی کے جانور ذبح کرانا شہریوں کے لئے ہمیشہ سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔بعض لوگوں کو تعلق و من مانے پیسوں پر خاندانی قصاب مل جاتے ہیں ، تو بیشتر افراد کو موسمی قصابوں کی خدمات لینا پڑتی ہیں جو گوشت اور کھال کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ان میں سے بیشتر اندرون سندھ سے بڑی تعداد میں کراچی آتے ہیں۔خاندانی قصاب گھرانوں کے کئی بزرگ اب ترجیحاً اجتماعی قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں۔عید الاضحی پر 70 سے 80سالہ کے بزرگ قصاب بھی قربانی کا جانور ذبح کرتے نظر آئے۔ تجربے کے باعث یہ قصاب ایک گھنٹے میں جانور کو ذبح کر کے اپنا کام مکمل کرلیتے ہیں۔’’امت‘‘ کو الخدمت کے اجتماعی قربانی کے کیمپ میں 70سالہ قصاب محمد رفیق نے بتایا کہ وہ 5برس سے اجتماعی قربانی کے جانور ذبح کر رہے ہیں ۔اب عمر کے اس حصے میں بھاگ دوڑ نہیں کی جاتی۔ ہمیشہ سے لالچ سے دور رہے ہیں ۔ اجتماعی قربانی کے جانور کی محض 5تا 8ہزار اجرت ملتی ہے کیونکہ اس میں ثواب بھی ملتا ہے ۔اجتماعی قربانی کے جانور ڈھائی سے 3اور زیادہ سے زیادہ ساڑھے3من کے ہوتے ہیں جسے ذبح کرنے کے 5ہزار یا کبھی ساڑھے 5ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ 4بیٹوں میں سے صرف ایک خاندانی پیشے سے وابستہ ہے۔ ایک نے کار پینٹنگ کا کام سیکھا جبکہ دوسرا سعودی عرب میں مرغی کے کام میں ہے۔ایک بیٹا ابھی پڑھ رہا ہے لیکن وہ بھی اس پیشے سے وابستہ نہیں ہونا چاہتا ۔ جانور ذبح کرتے ہوئے 40برس ہو گئے۔ایک بار دکان کا جانور ذبح کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔صبح10بجےتک گرانے میں ناکامی پر ایک پختون بھائی گھر سے بندوق لایا اور ہماری اجازت سے اسے گولی مار دی ۔ بچھڑا گولی لگتے ہی وہ گر گیاجسے ہم نے فوری طور پر ذبح کر دیا ۔جانور گرانے کے ماہر نوجوان فیض محمد نے امت کو بتایا کہ وہ بہت چھوٹی عمر سے اپنے والد کے ساتھ جانور ذبح کررہے ہیں۔یہ پیشہ ہی میرا شوق ہے۔35سالہ ایاز نے بتایا کہ وہ محض عید قرباں پر اپنے بزرگ رشتہ دار کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں، خاندانی قصائی ہیں لیکن مستقل طور پر اس پیشے سے وابستہ نہیں ۔ ایک دوسرے اجتماعی قربانی کے کیمپ پر موجود بزرگ قصائی محمد اور چمن سے ملاقات ہوئی ۔ محمد نے بتایا کہ وہ 70سال کے ہیں اور 50سے55 برس سے اس پیشے سے وابستہ ہیں ۔وہ ماتلی کے رہنے والے ہیں اور ہر سال اجتماعی قربانی کے جانور ذبح کرنے کے لئے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔بچے بھی ہمراہ ہوتےہیں ۔ 80 سالہ چمن اور محمد نے بتایا کہ یہ ان کا خاندانی کام ہے لیکن گاؤں میں مناسب پیسے نہ ملنے کی وجہ سے وہ کراچی آجاتے ہیں ، یہاں پہلے 35سو روپے میں ایک جانور ذبح کرتے تھے اب اس بار 5ہزار روپے میں معاملات طے ہوئے ہیں۔