ایمسٹرڈیم(امت نیوز) گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کرکے مسلمانوں کی دل آزادی کا سبب بننے والے ہالینڈ کے ملعون رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈ رکے دوغلے پن پرہالینڈ میں بحث شروع ہوگئی ہے۔ گیرٹ ولڈر نے 2011 میں اپنے خلاف بننے والے ایک خاکے کو اخبار کی ویب سائیٹ سے ہٹوانے کیلئے پورا زور لگایا تھا اور اس وقت ’’آزادی اظہار ‘‘کی منطق کو بھول گیا تھا ،تاہم اب وہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کیلئے آزادی اظہار کے پیچھے چھپ رہا ہے۔جمعہ کو گیرٹ ولڈر کو اس کے ناپاک اقدام سے نہ روکنے کا جواز ہالینڈ کی حکومت نے یہ پیش کیا تھا کہ مغرب میں آزادی اظہار کی روایت ہے ،تاہم ہالینڈ کے کئی شہریوں نے ولڈر کو 2011 میں اس کا ردعمل یاد دلایا ہے۔ گیرٹ ولڈر کا خاکہ ہالینڈ کے اخبار جوپ(joop) نے شائع کیا تھا ۔ اس میں ایک نازی عقوبت کیمپ کی طرز پر کیمپ دکھایا گیا ،جس کی خار دار تاروں والی دیوار کے ساتھ کچھ تارکین وطن قطار میں کھڑے ہیں۔ ان میں ایک مسلمان خاتون بھی شامل ہے۔ اس قطار کو روکتے ہوئے ولڈر انہیں ایک دروازے سے اندر جانے کے لیے کہہ رہا ہے۔ دروازے کے اوپر ڈچ زبان میں ’’شاور‘‘ لکھا ہے۔ یاد رہے کہ نازی جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کے لیے اس طرح کے کیمپ بنائے تھے ،جہاں یہودیوں کو غسل خانوں میں بھیجا جاتا تھا اور ان غسل خانوں کے شاور سے زہریلی گیس نکلتی تھی، جس کے اثرات سے وہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہو جاتے تھے۔ جوپ کی جانب سے اس خاکے کا سبب معلون رکن پارلیمنٹ کی تارکین وطن سمیت مختلف طبقات کیخلاف دشنام طرازی تھی۔ گیرٹ ولڈر کی پارٹی پی وی وی نے کابینہ کو ایک نئے قانون کا مسودہ پیش کیا تھا ،جس کے تحت ایک سے زائد بار جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو مخصوص ’’گارڈن ویلجز‘‘ میں کنٹینرز کے اندر بند رکھنےکی پیش کش کی گئی تھی۔ تاہم اپنے خلاف کارٹون سامنے آنے پر گیرٹ ولڈر نے اسے اخبار کی ویب سائیٹ سےہٹانے کامطالبہ کیا اور مہم شروع کردی۔ اس نے اپنے خلاف کارٹون کو ہتک آمیز قرار دیا۔ ۔ ولڈر نے ڈچ اخبارات و ٹی وی چینلز کی تنظیم ’’وارا‘‘ کو دھمکی دی کہ اگر جوپ کی ویب سائیٹ سے کارٹون نہیں ہٹایا گیا تو وہ وارا کی تقریبات کا بائیکاٹ کرے گا۔ دوسری جانب اخبار نے ’’آزادی اظہار‘‘ کا مؤقف اپناتے ہوئے رکن پارلیمنٹ سے کہا کہ خاکے میں جو دکھایا گیا ہے ،وہ کارٹونسٹ کی اپنی رائے ہے۔ اخبار نے کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ولڈر جیسے سیاستدان اپنے بارے میں بحث کو دبانے کیلئے طاقت کا سہارا لیتے ہیں۔ ولڈر کی طرف سے 2011 میں اپنائے گئے مؤقف کو ہالینڈ کے شہریوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کردیا ہے۔ ان میں پاکستانی نژاد ڈچ شہری بھی شامل ہیں۔ تاہم ولڈر کی منافقت کی یہ واحد مثال نہیں۔ 2011 میں ہی ولڈر کو جب ایک ڈچ سیاستدان مائیکل بلوک نے اڈولف ہٹلر سے تشبیہ دی تھی تو اس وقت بھی ولڈر نے واویلا مچا دیا تھا۔