امت رپورٹ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے غدار شکیل آفریدی کی رہائی کا ٹاسک اپنے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو دے دیا ہے، جو اگلے ماہ کی پانچ تاریخ کو پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس دورے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ دوسری جانب شکیل آفریدی کو اڈیالہ جیل سے ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
واشنگٹن اور اسلام آباد میں موجود سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اگرچہ پاکستانی حکام سے دیگر معاملات پر بھی بات کریں گے، تاہم شکیل آفریدی کی رہائی کا ایشو ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ ذرائع کے مطابق شکیل آفریدی کی رہائی کا ٹاسک ٹرمپ نے مائیک پومپیو کو اس وقت ہی سونپ دیا تھا جب وہ رواں برس اپریل کے اواخر تک سی آئی اے سربراہ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ بالخصوص فروری سے اپریل کے درمیانے عرصے میں امریکی حکام کی طرف سے شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے سر توڑ کوششیں کی گئیں۔ اس دوران امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان اعلیٰ سطح کے متعدد رابطے کئے گئے، تاہم بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ وفاقی دارالحکومت میں موجود سابق حکومت کے ایک اہلکار کے بقول نون لیگی حکومت ڈاکٹر شکیل کی رہائی کا بھاری پتھر چومنے سے گریزاں تھی۔ اسے خوف تھا کہ اس کا خمیازہ اسے الیکشن میں بھگتنا پڑ سکتا ہے، جو سر پر آ چکے تھے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان چند ماہ کے دوران دونوں ممالک کے حکام کے درمیان پس پردہ ہونے والی بات چیت اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ امریکہ میں شکیل آفریدی کے استقبال کی تیاری شروع کر دی گئی تھیں۔ امریکہ میں موجود ڈاکٹر عافیہ کے وکلا کو بھی ٹرمپ انتظامیہ میں موجود اپنے ذرائع سے یہ سُن گُن ملی تھی۔ لہٰذا انہوں نے بھی ہاتھ پیر مارنا شروع کئے، تاکہ شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ کی رہائی کو ممکن بنایا جا سکے۔ تاہم جب انہیں معلوم ہوا کہ شکیل آفریدی کی رہائی کے عوض عافیہ کی حوالگی کا کوئی آپشن زیر غور نہیں تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔
امریکی تھنک ٹینک سے جڑے ایک سابق سفارت کار نے بتایا کہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو ذاتی طور پر بھی شکیل آفریدی کی رہائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کیونکہ شکیل آفریدی اس ادارے سی آئی اے کے لئے کام کرتا رہا ہے، جس کے وہ سربراہ رہ چکے ہیں۔ شکیل آفریدی کو رہائی دلانے سے متعلق اپنی کوششوں کا ذکر نجی محفلوں میں تو کرتے ہی رہتے ہیں۔ آن دی ریکارڈ بھی وہ اس پر بولتے ہیں۔ قریباً تین ماہ قبل کانگریس میں ایک سوال پر وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کو وہ یقینی بنائیں گے اور یہ کہ جب تک شکیل آفریدی کو رہا نہیں کر دیا جاتا پاکستان کی مالی امداد مکمل طور پر بند کر دینی چاہئے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق امریکی کوششوں کے باوجود شکیل آفرید کا رہا نہ ہونا بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ شکیل آفریدی کی گرفتاری کے بعد سے پاکستان کے لئے امریکی امداد میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ بالخصوص جب سے ٹرمپ نے صدارت سنبھالی ہے، اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ امریکی رویہ مزید سخت ہو گیا ہے۔ اس وقت واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ ایسے میں شکیل آفریدی کی رہائی دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی حکام کو دو ٹوک انداز میں یہ پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ سی پیک کسی صورت رول بیک نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ کہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا کردار کسی صورت قبول نہیں۔ لہٰذا امریکی وزیر خارجہ کے مجوزہ دورہ پاکستان میں ان نکات پر ڈسکشن شامل نہیں۔ البتہ افغانستان میں قیام امن اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے ایک بار پھر پاکستان کو آمادہ کرنے کی بات کی جائے گی۔ اسی طرح واشنگٹن کی کوشش ہے کہ کسی طرح ماسکو کی طرف اسلام آباد کے بڑھتے جھکائو کو روکا جائے۔ تاہم مائیک پومپیو کے دورے کا اہم مقصد ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی پر بات کرنا ہے۔ ذرائع کے بقول ٹرمپ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ جس طرح اسامہ کی ہلاکت نے اوباما کو دوبارہ الیکشن جتا دیا تھا۔ اسی طرح شکیل آفریدی کی رہائی ٹرمپ کے مواخذے کو رکوا سکتی ہے۔ اگر اپنے دعوے کے مطابق ٹرمپ پاکستان سے شکیل آفریدی کو لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ مواخذے کے حالیہ دبائو سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیونکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان کانگریس بھی شکیل آفریدی کی رہائی کے خواہشمند ہیں۔ ذرائع کے مطابق شکیل آفریدی کی رہائی سے متعلق تازہ پیغام ساڑھے تین ماہ قبل امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلس پاکستان لے کر آئی تھیں۔ لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی اور اب نئی حکومت کو ٹیسٹ کرنے کے لئے ٹرمپ اپنے گھاگ وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو پاکستان بھیج رہے ہیں۔
ادھر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اڈیالہ سے ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ فوری طور پر اس منتقلی کی وجوہات معلوم نہیں ہو سکیں۔ قبل ازیں پشاور سے اس کی اڈیالہ جیل منتقلی کا سبب سیکورٹی معاملات بتائے گئے تھے۔ تاہم روسی خبر رساں ایجنسی نے انکشاف کیا تھا کہ سی آئی اے نے پشاور جیل توڑ کر شکیل آفریدی کو رہا کرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اور یہ کہ شکیل آفریدی کی اڈیالہ جیل منتقلی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ روسی نیوز ایجنسی کی اس خبر کی تصدیق یا تردید کے حوالے سے آج تک دفتر خارجہ یا دیگر متعلقہ اداروں نے سرکاری سطح پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم اعلیٰ سیکورٹی حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا تھا کہ سی آئی اے نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ذریعے پشاور جیل توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن ملک کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی نے یہ پلان ناکام بنا دیا۔ رواں برس مئی میں سابق صدر پرویز مشرف کا اپنے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو شکیل آفریدی کے بدلے مولوی فضل اللہ کی حوالگی کی ڈیل کر لیتے۔ چند روز بعد العربیہ انگلش نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مولوی فضل اللہ کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کی ڈیل ہو چکی ہے۔ اگلے ماہ جون میں مولوی فضل اللہ امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولوی فضل اللہ کے مارے جانے کے باوجود افغانستان میں ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک بدستور کام کر رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکی و اتحادی افواج کے ناک کے نیچے قائم دہشت گرد ٹی ٹی پی کے ڈھانچے کو ختم کیا جائے۔ صرف سربراہ کے مارے جانے سے فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اس کی جگہ دوسرے نے لے لی ہے۔ ذرائع کے بقول پاکستان کے مجوزہ دورے پر آنے والے امریکی وزیر خارجہ کے سامنے ایک بار پھر یہ معاملہ رکھا جائے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭