جامعہ کراچی-کرپشن سامنے آتے ہی ڈائریکٹر لیگل چھٹی پر روانہ

0

کراچی(رپورٹ:راؤ افنان) جامعہ کراچی میں غیر قانونی طور پر 20 گریڈ میں تعینات ڈائریکٹر لیگل پر انضباطی کارروائی کی تلوار لٹک گئی ،کرپشن سامنے آنے پر موصوف کارروائی کے ڈر سے ایک سال کی رخصت پر چلے گئے، مقدمات کی موثر پیروی نہ کرنے اور ٹھوس شواہد نہ دینے پر 164 سے زائد مقدمات میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی ،جبکہ زیر التوا مقدمات 38سے زائد ہوگئے، جن میں جامعہ کی اربوں مالیت اراضی کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ ماہر قانون کے مطابق آصف مختار نے لیگل پریکٹشنر ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی کی ہے ،جس پر ان کیخلاف سندھ ہائی کورٹ بار کونسل کی ڈسیپلنری کمیٹی کارروائی کرسکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی سابق انتظامیہ کے منظور نظر اور غیر قانونی طور پر 20گریڈ میں تعینات ڈائریکٹر لیگل آصف مختار موجودہ انتظامیہ کی کارروائی کے ڈر سے خود ہی ایک سال کی رخصت پر چلے گئے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ اور ڈائریکٹر لیگل کے درمیان مختلف مقدمات سے متعلق گزشتہ سال سے تناؤ جاری ہے، جس میں جامعہ انتظامیہ ڈرائریکٹر لیگل سے مقدمات میں موثر پیروی نہ کرنے اور عدالتوں میں ٹھوس شواہد نہ دینے پر بار بار پوچھتی رہی، تاہم وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ اور ڈائریکٹر لیگل کے درمیان تناؤ کی وجہ جامعہ کی اراضی کے مقدمات ہیں، جس میں کئی افراد جامعہ کی اربوں مالیت کی اراضی پر دعویدار بنے ہوئے ہیں، جن میں سوٹ نمبر 1087/1999،785/2014،730/1999،331/ 2014،20/2012،353/2010،1316/2007 سمیت دیگر مقدمات شامل ہیں اور ڈائریکٹر لیگل کی جانب سے ان مقدمات کی موثر پیروی نہیں کی جا رہی اور نہ ہی عدالت میں جامعہ کو 1951میں الاٹ کل اراضی کا نقشہ پیش کیا جا سکا، جبکہ نقشہ ریکارڈ میں موجود ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جامعہ ریکارڈ کے مطابق 1985سے لیکر اب تک سندھ ہائیکورٹ میں جامعہ کی جانب سے اور اس کیخلاف 164 سے زائد مقدمات دائر کئے گئے، جن میں سے 125سے زائد نمٹائے گئے جبکہ 38تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ذرائع کے مطابق مقدمات کی اکثریت میں ڈائریکٹر لیگل کی جانب سے موثر پیروی نہ کرنے اور عدالتوں میں ٹھوس شواہد پیش نہ کرنے پر خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ سابقہ انتظامیہ نے ڈائریکٹر لیگل کو غیر قانونی طریقے سے 20گریڈ سے نوازا جبکہ وہ سندھ ہائی کورٹ میں 2007تک وکالت بھی کرتے رہے جو لیگل پریکٹشنر ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سابقہ انتظامیہ نے آصف مختار کو جامعہ کا ڈائریکٹر لیگل تعینات کرنے کیلئے سینڈیکیٹ ایجنڈے کی توثیق کرانے کا غیر قانونی اقدام کیا۔ آصف مختار کو ڈائریکٹر لیگل تعینات کرنے کا معاملہ سینڈیکیٹ کے 604ویں اجلاس کی شق نمبر 9میں لایا گیا تھا جبکہ مذکورہ تعیناتی پر سینڈیکیٹ اراکین سے حقائق بھی چھپانے کا بھی انکشاف ہوا ہے، تاہم کوئی تحقیقات نہ ہوسکی۔ ذرائع نے بتایا کہ سابقہ جامعہ انتظامیہ نے جامعہ ایکٹ کی خلاف ورزی کو اپناتے ہوئے آصف مختار کو گریڈ 20دیا جبکہ محکمہ قانون حکومت سندھ کی جانب سے 13نومبر 2007 کو جاری نوٹیفیکیشن میں واضح بتایا گیا ہے کہ محکمہ قانون حکومت سندھ کا جامعہ کراچی کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مذکورہ تقرری نامے میں 18اکتوبر 2006میں بتایا گیا کہ تمام سروس معاملات میں آصف مختار پر جامعہ کراچی کے قواعد، قوانین اور آرڈیننس لاگو ہوں گے، جبکہ 10نومبر 2007 کو جاری ترقی اسکیم کے نوٹیفیکشن کے مطابق گریڈ 20میں ترقی پانے کیلئے گریڈ 17میں 17سال گریڈ 19کا 5 سال کا تجربہ لازم ہے۔ اس طرح گریڈ 19میں ترقی کیلئے گریڈ 17میں 12سال اور گریڈ18میں 7سال کا تجربہ لازمی ہے، تاہم آصف مختار کو گریڈ 19میں دی گئی ترقی سوالیہ نشان ہے جبکہ ترقی اسکیم کے مطابق وہ معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ جامعہ کی سابقہ انتظامیہ نے سینڈیکیٹ پالیسی کی خلاف ورزی کر کے آئین کے آرٹیکل 4 کی بھی خلاف ورزی کی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آصف مختار کو ایڈ ہاک پر 2002 میں اسٹیٹ افسر تعینات کیا گیا تھا جبکہ وہ عہدے کیلئے قابلیت اور تجربے پر پورا نہیں اترتے تھے۔ اسٹیٹ افسر تعینات کرنے کیلئے انجینئرنگ کی سند ہونا لازمی ہے۔ ذرائع کے مطابق آصف مختار کو 2 اضافی انکریمنٹ کیساتھ 2006 میں گریڈ 18 میں ڈپٹی رجسٹرار لیگل تعینات کیا گیا جبکہ 2005 میں لاگو ہونے والی نئی قومی تنخواہ اسکیم پالیسی کے مطابق مذکورہ گریڈ کا افسر اضافی انکریمنٹ حاصل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آصف مختار سندھ ہائی کورٹ میں 2007 تک وکالت کرتے رہے ہیں، جبکہ وکالت کو مکمل وقت دینے والا پیشہ ور وکیل کسی بھی سرکاری عہدے پر مکمل فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ مذکورہ شخص کی جانب سے جامعہ کراچی میں کام کرنا لیگل پریکٹشنر ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مذکورہ شخص نے 2007 کے بعد سندھ ہائی کورٹ بار سے لاتعلقی کی تھی۔ اس حوالے ماہر قانون ایڈوکیٹ ندیم ہاشمی کا کہنا ہے کہ لیگل پریکٹشنر ایکٹ میں یہ بات واضح ہے کہ وکالت کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ اگر آصف مختار کی جامعہ میں بھرتی 2002 کی ہے اور وہ 2007 تک وکالت بھی کرتے رہے جو سندھ ہائی کورٹ بار کونسل اور لیگل پریکٹشنر ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ان کیخلاف بار کونسل کی ڈسیپلنری کمیٹی کارروائی کرسکتی ہے۔ خبر پر موقف دیتے ہوئے رجسٹرار جامعہ پروفیسر ڈاکٹر ماجد ممتاز نے تصدیق کی کہ وہ ایک سال کی رخصت پر جا چکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جامعہ میں 20 گریڈ کا ڈائریکٹر لیگل کا عہدہ قائم کیا گیا تو انہوں نے تردید کی کہ ایسی کوئی پوسٹ فنانس کمیٹی نے نہیں بنائی، ڈائریکٹر لیگل آصف مختار سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا نمبر بند رہا۔ واضح رہے کہ جامعہ کراچی کے کسی بھی انتظامی فورم یا کمیٹی میں ڈائریکٹر لیگل کا عہدہ قائم کرنے کا کوئی تحریری فیصلہ نہیں کیا گیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More