سرفروش

0

سچن بھنڈاری نے اس چاپلوسی پر خوشی کے اظہار کے لیے کوئی چھوٹا نوٹ دربان کو تھما دیا اور پھر دبے لہجے میں اس کے کان میں کچھ کہا۔ میں اتنا ہی سمجھ پایا کہ اس نے کامنی نام لیا ہے۔ جواب میں دربان نے زور زور سے ہاں میں گردن ہلائی اور کہا ’’بالکل آئی ہے سرکار، گیم والے کمرے میں ہے۔ سچی پوچھو تو میرے خیال میں سرکار ہی کے لیے آوت ہے وہ!‘‘۔
یہ سنتے ہی سچن گویا ترنگ میں آگیا اور پرجوش انداز میں دربان کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ میرے لیے اس وقت اس حلیے میں اس کے پیچھے جانا ممکن نہیں تھا، لہٰذا میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ ایک لمبا چکر لگاکر میں واپس آیا اور اپنے آٹو رکشا میں وہاں سے چل دیا۔ میرا ذہن تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اب مجھے کیا حکمتِ عملی اپنانی چاہیے۔ بالآخر میں ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔
لگ بھگ تین گھنٹے بعد میں ایک بار پھر ایلفنسٹون ہوٹل کے سامنے سے گزرا۔ سچن کی سرخ فیئٹ گاڑی بدستور اسی جگہ کھڑی تھی۔ اس کے ساتھ کئی ایک گاڑیاں اور بھی وہاں موجود تھیں۔ البتہ اس دوران میں ہوٹل کی عمارت کے نچلے حصے میں موجود تمام دکانیں اور طعام گاہیں بند ہوچکی تھیں اور سڑک پر لگ بھگ سناٹے کا عالم تھا۔ حتیٰ کہ ہوٹل کا دربان بھی دروازے سے ہٹ کر کہیں اندر جا بیٹھا تھا۔
میں نے موقع مناسب جان کر اپنا آٹو رکشا سچن کی گاڑی سے لگ بھگ جوڑ کرکھڑا کیا اور آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد تیزی سے اپنے ہاتھ میں موجود سوا اس کے عقبی ٹائر میں پیوست کر دیا۔ تیزی سے پھونک نکلنے سے سانپ کے پھنکارنے کی آواز پیدا ہوئی اور چند لمحوں میں گاڑی کا عقبی ٹائر بیٹھ گیا۔ میں نے جلدی سے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ میری یہ کارروائی کسی کی نظر میں نہیں آئی تھی۔ اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوکر میں نے رکشا گھمایا اور تقریباً سو گز کے فاصلے پر ایک درخت کے سائے میں روک دیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سچن کو ہوٹل کی مصروفیات سے فارغ ہوکر نیچے آنے میں کتنی دیر لگے گی، لیکن انتظار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد میں نے اسے ہوٹل کے دروازے سے باہر آتے دیکھا۔ اس کی چال سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سرور میں ہے۔ اس کی اس حالت کی وجہ سے ہوٹل کا دربان اسے باہر تک چھوڑنے آیا۔ لیکن سچن نے کوئی نوٹ تھماکر اسے واپس بھیج دیا اور قدرے جھومتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔
میری نظروں کے سامنے اس نے گاڑی کا انجن اسٹارٹ کیا۔ اس دوران میں بھی اپنے رکشے کا انجن اسٹارٹ کر چکا تھا۔ اس نے ریورس گیئر لگاکر گاڑی پیچھے کی اور پھر پہلا گیئر لگاکر ایکسلیٹر دبایا۔ گاڑی آگے بڑھی، لیکن سچن اتنے ہوش میں ضرور تھا کہ اسے بیس پچیس گز کا فاصلہ طے کرتے ہی اندازہ ہوگیا کہ گاڑی کے ٹائر میں گڑبڑ ہے۔ اس نے گاڑی روکی اور پھر اتر کر پچھلے ٹائر کا جائزہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ٹائر کو ٹھوکر ماری اور چیخ کر شاید گاڑی کو گالی دی۔ اب مجھے یہ انتظار تھا کہ کیا وہ ڈکی سے ٹائر نکال کر بدلے گا، اور کیا اس کے ہوش و حواس اس قابل ہیں کہ وہ ٹائر بدل سکے۔ ایک امکان یہ بھی تھا کہ وہ ہوٹل والوں سے مدد طلب کرے۔ مجھے اس سے پہلے اس کی مدد کو پہنچنا تھا۔
میرا رکشا سچن کے پاس پہنچا تو اس کے منہ سے ابلتی مغلظات سن کر ناک بند کرنے کو دل چاہا۔ میں نے رکشا اس کے پاس روکتے ہوئے پوچھا ’’آر یو آل رائٹ سر؟ تم کسے گالیاں دے رہا ہے؟‘‘۔ اس دوران میں نے اپنا چہرہ گلوبند میں چھپالیا تھا، جس سے میری آواز خود بخود کافی بدل گئی تھی۔ تاہم میں نے بمبئیا لہجہ اختیار کرنے کی کوشش بھی کی۔
اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور لگ بھگ پھنکارتے ہوئے کہا کہ گاڑی کا ٹائر فلیٹ ہو گیا۔ اس کے اس جملے میں بھی دو گالیاں موجود تھیں۔
میں نے خوش اخلاق لہجے میں پیشکش کی’’نو پرابلم سر، میں ٹائر چینج کرنے میں تمہارا ہیلپ کر دیتا ہوں‘‘۔
اس پر اس نے مزید مغلظات سے مرصع خوش خبری سنائی کہ اس کا اضافی ٹائر پہلے ہی پنکچر ہے اور مصروفیات کی وجہ سے اسے پنکچر لگوانے کا وقت نہیں مل پا رہا۔ میں نے تشویش بھرے لہجے میں کہا ’’اوہ، یہ تو بڑا پرابلم ہو گیا ہے۔ بہت لیٹ نائٹ ہوگیا ہے۔ اب تو کوئی پنکچر والا نہیں ملے گا۔ سر اگر آپ مائنڈ نہ کرے تو… تم کو کدھر جانا ہے؟‘‘۔
اس نے اپنی منزل بتائی۔ میں نے جلدی سے کہا ’’سر ایسا کرو، یہ گاڑی ادھر ہوٹل کے گیٹ پر چھوڑ دو، میں پانچ منٹ میں تمہارے کو بنگلے پر پہنچادے گا، بس پانچ روپے بھاڑا لگے گا‘‘۔ اس نے بھاڑے کو گندی گالی کی مدد سے معمولی قرار دیتے ہوئے میری پیشکش قبول کرلی۔ میں نے اس سے چابی لے کر گاڑی ہوٹل کے گیٹ کے قریب پارک کی اور اسے بغل میں ہاتھ ڈال سہارا دے کر اپنے رکشے میں بٹھالیا۔ کچھ ہی دیر میں میرا رکشا سنسان سڑکوں پر دوڑنے لگا۔ البتہ اس کی فرمائش پر مجھے رفتار کم کرنی پڑی۔ وہ اب پہلے کے مقابلے میں قدرے ہوش میں دکھائی دے رہا تھا، لہٰذا میں نے مفلر کو مزید اچھی طرح چہرے پر لپیٹ لیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ مکمل ہوش میں آنے پر وہ مجھے باآسانی پہچان سکے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More