ابوواسع
بھتہ خوری کی عادت باڑلا گروپ کا خاصا کہلاتی تھی اور کسی کو جرات نہ تھی کہ وہ اس سے انکار کرتا۔ لیکن بتی چوک لاہور پر واقع شیزان فیکٹری کے مالک سے پانچ لاکھ بھتہ اسّی کی دہائی کے اوائل میں مانگنا ایک بڑی رقم تصور کی جاتی تھی۔ شیزان فیکٹری کے مالک نے بھتہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ صورتحال غیر متوقع تھی اور بھتے کی عدم وصولی یقینا اچھو اور شیدی باڑلے کے لیے نقصان دہ تھی، کہ ان کی دہشت کو پہلی بار کسی نے چیلنج کیا تھا۔ باڑلا گروپ سر جوڑ کر بیٹھ گیا کہ کس طرح اس صورت حال سے نمٹا جائے۔ آخر طے ہوا کہ اس کا بیٹا اغوا کیا جائے۔ چنانچہ لاہور کے ایک اسکول سے آتے جاتے ہوئے انہوں نے اس فیکٹری کے مالک کا بیٹا اور فیکٹری کا منیجر اغوا کرلیا۔ فیکٹری کا مالک بہت اپروچ والا بندہ تھا۔ اس نے لاہور کی پولیس کو متحرک کردیا، لیکن باڑلے بھتے کے بغیر دونوں کو چھوڑنے پر راضی نہ تھے۔ اعوان ڈھائیوالا میں بارہا ان اغوا کنندگان کی بازیابی کے لیے پولیس نے ریڈ کیے، لیکن اچھو اور چھیدی ہمیشہ غچہ دے کر نکل جاتے۔ پولیس کسی صورت کمپرومائز پر تیار نہ تھی، لہذا اچھو اور چھیدی گروپ کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا۔ ان کے گائوں سے کچھ دور ایک بڑا پولیس مقابلہ ہوا، جس میں دونوں طرف سے شدید فائرنگ کی گئی۔ اسی پولیس مقابلے میں اچھو اور چھیدی کا رشتے میں چچا لیاقت فوجی مارا گیا، جبکہ اچھو اور چھیدی نے دونوں اغوا کنندگان کو قتل کر دیا اور اس مقابلے سے جان بچا کر نکل گئے۔
اس واقعے نے اچھو اور چھیدی کو دہشت کے نئے منصب پر فائز کردیا۔ اب وہ جس سے چاہتے بھتہ وصول کرلیتے۔ انہوں نے ریلوے کے ایک وزیر ڈاکٹر سردار سے ایک لاکھ بھتہ مانگا۔ وہ بھگوان پورے کا رہائشی تھا۔ سردار نے اچھو باڑلے کو کہلوا بھیجا کہ پیسے درختوں پر نہیں اگتے کہ میں تمہیں وہاں سے پیسے توڑ کر دے دوں۔ چنانچہ اچھو اور چھیدی نے اسے اغوا کرلیا اور اپنی پناہ گاہ میں لے آئے۔ اس نے دونوں سے معافی تلافی کی کوشش کی، لیکن اچھونے اسے کہا کہ ایک شرط پر چھوڑ سکتا ہوں کہ پیسے درختوں کے ساتھ لگائو اور وہاں سے توڑ کر ایک لاکھ دو۔ چنانچہ اس نے ایک لاکھ روپیہ منگوایا۔ سردار نے وہ تمام روپے درختوں کے ساتھ باندھے۔ جب باندھ چکا تو اچھو نے اسے کہا کہ اب انہیں اتارو اور ہمیں دو۔ چنانچہ سردار نے وہ لٹکے ہوئے پیسے دوبارہ درختوں سے اتارے اور اچھو، چھیدی کو پیش کیے۔ جب جاکر اس کی جان چھوٹی۔
دونوں بھائیوں میں اچھو سمجھدار تھا، جبکہ چھیدی بہت جذباتی اوردلیر تھا۔ اگرچہ قتل زیادہ اچھو نے کیے لیکن لڑنے بھڑنے میں چھیدی زیادہ تیز تھا اور وہ اپنے سامنے کسی کو ٹکنے نہیں دیتا تھا۔ ایک معروف واقعہ مغل پورہ پٹرول پمپ پر پیش آیا۔ مکھن گجر لاہور کا ایک معروف نام تھا۔ اس کی دہشت بھی بہت پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس پر لالی ووڈ میں مکھن گجر نام سے فلم بنائی گئی، جو بہت ہٹ ہوئی۔ اچھو اور چھیدی کا مزاج تھا کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مغل پورہ پٹرول پمپ پر مکھن گجر کا اچھو اور چھیدی باڑلے سے آمنا سامنا ہوگیا۔ دونوں بھائیوں کی سائیکی بن گئی تھی کہ ان کے سامنے کوئی بندہ اڑی نہ کرے۔ مکھن نے دونوں بھائیوں پر فقرے کسے تو چھیدی کو غصہ آگیا۔ اس نے کلاشنکوف کی نالی مکھن گجر کے منہ میں ڈال دی اور اس سے پوچھا کہ بتا اوئے تو مکھن ہے کہ لسی ہے۔ مکھن گجر کو موت اپنے سامنے ناچتی دکھائی دی۔ اس نے خوف زدہ ہوکر کہا کہ چھیدی باڑلے میں لوگوں کے لیے مکھن ہوں، لیکن آپ دونوں بھائیوں کے لیے لسی ہوں۔ مکھن گجر اس واقعے سے اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ اس نے جاکر خود کو کمرے میں بند کرلیا، اور تین چار روز بعد اسی کمرے میں اس دکھ سے اس کا ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اپنی جان ہار گیا۔
ایک طرف بھتہ لینے کا سلسلہ جاری تھا تو دوسری طرف پچروں کے ڈیرے پر قبضہ بھی برقرار تھا۔ اسی دوران یونس پچر جیل سے چھوٹ گیا اور اعوان ڈھائیوالا کے بجائے راوی پار سلیم لاٹیا کے ڈیرے پر جا ٹھہرا۔ سلیم لاٹیا علاقے کا معروف شخص تھا اور پچروں سے اس کی دوستی پرانی تھی۔ اس سے قبل یونس کے بیٹے طفیل اور محمد حسین وغیرہ بھی اسی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ اب پچروں کا سارا گینگ آہستہ آہستہ سلیم لاٹیا کے ڈیرے پر اکٹھا ہونے لگا، کیونکہ یونس پچر کی واپسی نے ان میں نئی روح پھونک دی تھی۔ یونس پچر، سرو چھبیل وغیرہ ہی اچھو اور چھیدی کے باپ علم دین کے قتل میں ملوث تھے۔ اب ایک بار پھر یونس جیل سے باہر آچکا تھا۔ یونس پچر عمر میں بڑا اور خاصا سمجھدار انسان تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جس دشمنی کا بیج علم دین کی موت پر بویا گیا تھا، اب اس کے شعلے بہت سارے خاندانوں کو چاٹ گئے ہیں۔ پچر خاندان تتر بتر ہوچکا تھا اور اسے دوبارہ اکٹھا کرنا ضروری تھا۔ یونس کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ باڑلوں سے اپنا ڈیرہ واپس لے۔ اچھو اور چھیدی کا اگرچہ پچروں کے ڈیروں پر قبضہ تھا، لیکن وہ وہاں رہتے بہت کم تھے۔ اپنی رہائی کے کچھ دن بعد یونس، طفیل (طفیل یونس کا بیٹا لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ طفیل اس وقت چھوٹا تھا، اس کے ساتھ شاید کوئی اور یا دوسرا بیٹا محمد حسین تھا)، چھونکا بانسوالیہ اور مشتاق عرف نکا لوہار اپنے ڈیرے کا جائزہ لینے کی غرض سے دریا کے پار پہنچ گئے۔ یہ چاروں اپنے وقت کے دلیر ترین لوگ تھے، اسی لیے انہوں نے اپنے ساتھ کسی اور کو نہ لیا اور اکیلے ہی اسلحہ لے کر ڈیرے کا جائزہ لینے پہنچ گئے۔ دوسری جانب یہ اتفاق تھا کہ اچھو اور چھیدی اپنے پورے گینگ کے ساتھ ڈیرے پر پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ پولیس بھی تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں خبر مل گئی تھی کہ یونس وغیرہ ڈیرے کی طرف آرہے ہیں، چنانچہ اچھو اور چھیدی پولیس کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ کیونکہ اس وقت تک صفدر ڈیال اور راحیل اصغر کی وجہ سے پولیس بھی ان کی حمایت کرتی تھی۔ چنانچہ سارا دن پچروں کی تاک میں رہنے والے باڑلوں نے عصر کے وقت پولیس کے ہمراہ انہیں جالیا۔ اب اچھو اور چھیدی پیچھے تھے، جبکہ پولیس کو آگے دریا کی سمت بٹھا دیا گیا، تاکہ وہاں سے وہ بھاگ نہ سکیں۔ یونس وغیرہ صرف جائزے کی غرض سے آئے تھے، لڑنے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن جب ان پر اچھو اور چھیدی نے حملہ کیا تو وہ بھی دلیری سے جواب دیتے ہوئے دریا کی جانب پیچھے ہٹنے لگے تاکہ وہاں پہنچ کر نکل جائیں۔ جیسے ہی وہ دریا کی سمت پہنچے تو وہاں موجود پولیس نے ان پر فائرکھول دیا۔ اب یونس اور اس کے لوگ درمیان میں پھنس چکے تھے۔ یہ اتفاق ہے کہ اس وقت تک کسی کو گولی نہ لگی، حالانکہ ایک دوسرے پر بے دریغ گولیاں چلائی گئیں۔ ایک طرف امرودوں کے باغ میں، جو کہ کرنل سرور کا تھا، اچھو اور چھیدی وغیرہ بیٹھے تھے۔ جبکہ دوسری جانب دریا پر پولیس نے قبضہ جما رکھا تھا۔ یونس چونکہ پرانا دشمن دار کھلاڑی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ خود کو اپنے بیٹے سمیت دیگر دو لوگوں کی جان کیسے بچانی چاہئے۔ چنانچہ وہ وہیں نیچے لیٹ گیا اور باقی تینوں ایک جانب دریا کی سمت نکل گئے۔ تین لوگ گھیرے سے کسی نہ کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور وہ دریا کے کنارے جا پہنچے۔ جبکہ یونس پچر نے اچھو اور چھیدی پارٹی سمیت پولیس کو اپنے ساتھ انگیج رکھا۔ جب وہ تینوں دریا پر پہنچے تو مشتاق عرف نکے لوہار نے یونس پچر کے بیٹے سے کہا کہ دیکھو یونس پچر ان کے قابو میں آگیا ہے، واپس چلیں اور اس کو چھڑائیں۔ اگرچہ مشتاق عرف نکا پچروں کا کچھ نہیں لگتا تھا، لیکن وہ یونس کا بہت وفادار تھا۔ کیونکہ اس کے باپ شریف کو یونس نے بھائی کہا تھا اور اسی ناتے وہ یونس کا بھتیجا بنا ہوا تھا۔ اس نے بہت مشکل وقت میں بھی پچروں کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یونس کے بیٹے کو واپس لے جانے کا کہنے لگا۔ لیکن اس موقع پر یونس کے بیٹے نے کہا کہ مشتاق میرا باپ مارا گیا ہے، کیونکہ جتنی گولیوں کی بارش ہوئی ہے، اس میں میرے باپ کا زندہ رہنامشکل ہے۔ واپس جانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن مشتاق لوہار بہت سیانا لڑکا تھا۔ کہنے لگا کہ دیکھو، گولی ابھی تک چل رہی ہے، غور سے سنو گولیاں دو اطراف سے چل رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چاچا یونس ابھی ان کا مقابلہ کر رہا ہے، اس لیے ہمیں واپس جانا ہوگا۔ اگر چاچا مارا گیا ہوتا تو ابھی تک کراس فائرنگ نہ ہو رہی ہوتی۔ لیکن اس موقع پر یونس کا بیٹا ہمت ہار گیا اور اس نے کہا کہ اب واپس جاکر موت کو گلے لگانے والی بات ہے۔ وہاں پولیس بھی ہے اور باڑلے بھی موجود ہیں۔ واپس جانا فضول ہے۔ ہم تین لوگ وہاں جاکر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ وہاں موجود ملاح سے کہہ کر کشتی میں بیٹھ کر وہ اپنے دوساتھیوںکے ہمراہ باپ کو اکیلا چھوڑ کر واپس سلیم لاٹیا کے ڈیرے پر آگیا۔ ادھر چار گھنٹے تک یونس پچر اکیلا، پولیس اور باڑلوں کے گروپ کا مقابلہ کرتا رہا۔ سوال یہ تھا کہ اس نے چار گھنٹے تک درجنوں لوگوں کا اکیلے کیسے مقابلہ کیا۔ اتنا اسلحہ اس کے پاس کہاں سے آیا اور کیا وہاں سے وہ جان بچانے میں کامیاب رہا۔ اس کی تفصیل سن کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اتنی دیر تک اکیلا لڑسکتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭