محمد زبیر خان
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اڈیالہ جیل سے ساہیوال جیل منتقل کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ غدار وطن کو جیل سے چھڑانے کی کوششوں کی اطلاعات ملی تھیں، جس پر یہ اقدام اٹھایا گیا۔ نئی حکمت عملی کے تحت امریکی جاسوس شکیل آفریدی کو مختلف جیلوں میں شفٹ کیا جاتا رہے گا۔ اس منتقلی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی اڈیالہ جیل میں موجودگی سے سبب بیک وقت دو ہائی پروفائل قیدیوں کی سیکورٹی میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔ دوسری جانب جیل حکام اس حوالے سے کوئی بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہ شکیل آفریدی کی ساہیوال جیل میں منتقلی کی نہ تو تردید کر رہے ہیں اور نہ ہی تصدیق۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق غدار وطن ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اتوار کے روز 26 اگست کو انتہائی سخت سیکورٹی میں ساہیوال جیل منتقل کیا گیا اور اس منتقلی کیلئے ہیلی کاپٹر استعمال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس منتقلی کی وجوہات سیکورٹی سے منسلک ہیں کہ خفیہ اداروں کو ایسی اطلاعات دستیاب ہوئیں، جن کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جیل سے چھڑانے کا کوئی منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کے فوری بعد متبادل حکمت عملی پر غور کیا گیا اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ساہیوال جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سال ماہ اپریل میں بھی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر شکیل آفریدی کو پشاور سینٹرل جیل سے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کیا گیا تھا۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کسی ایک جیل میں مستقل طور پر نہیں رکھا جائے گا، بلکہ مختلف جیلوں میں شفٹ کیا جاتا رہے گا۔ واضح رہے کہ کسی بھی جیل میں منتقلی کے اس عمل کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے سیکورٹی اداروں سے باقاعدہ مشاورت کی جاتی ہے۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کیلئے اڈیالہ جیل میں خصوصی سیل تعمیر کیا گیا تھا، جہاں پر تقریباً تمام ہی سہولتیں اسے میسر تھیں۔ وہاں سیکورٹی کا انتظام بھی سخت تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کی ساہیوال جیل میں منتقلی کے بعد اب اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ اڈیالہ جیل کے اس خصوصی سیل میں نواز شریف کو منتقل کر دیا جائے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسا آنے والے چند دنوں میں کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کی منتقلی کی ایک بڑی وجہ نواز شریف کی بھی اڈیالہ جیل میں موجودگی ہے۔ ذرائع کے بقول اڈیالہ جیل کا عملہ معمول کے مطابق ہی ہے۔ نواز شریف کی منتقلی سے پہلے جیل کے عملے کی زیادہ توجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر تھی۔ مگر نواز شریف کی آمد کے سبب یہ توجہ بٹ چکی تھی، جس کی وجہ سے بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی منتقلی کا فیصلہ کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کی منتقلی اچانک کی گئی اور اس حوالے سے صرف چند افسران ہی جانتے تھے۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ان کے خاندان کو بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
’’امت‘‘ کے رابطہ قائم کرنے پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم آفریدی نے بتایا کہ… ’’شکیل آفریدی کی منتقلی کے حوالے سے جیل انتظامیہ نے کسی قسم کی اطلاع نہیں دی۔ ہمیں یہ اطلاعات میڈیا کے ذریعے ملی ہیں۔ اس منتقلی پر حیرت ہوئی ہے، کیونکہ اڈیالہ جیل کو انتہائی محفوظ سمجھا جاتا ہے اور شاید اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں تھی۔ مگر یہ تو حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے۔ مجھے اس منتقلی کی ٹائمنگ پر بہت حیرت ہوئی ہے۔ کیونکہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں امریکی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں‘‘۔ قمر ندیم آفریدی کا کہنا تھا کہ ’’ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کو سات سال سے زائد ہو چکے ہیں اور ان کو دس، دس اور تین سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ اگر یہ سزا ایک ساتھ شروع ہوتی ہے تو وہ اپنی سزا پوری کر چکے ہیں۔ مگر اس حوالے سے جیل حکام کچھ بھی نہیں بتا رہے ہیں کہ وہ کس طرح ان کی سزا کو گن رہے ہیں اور ان کا ریکارڈ کیا کہتا ہے‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭