امت رپورٹ
مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار نامزد کرنے کا فیصلہ نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے کیا۔ فوری رابطہ نہ ہونے کے سبب نواز شریف سے مشاورت نہ کی جا سکی، تاہم شہباز شریف کے اس فیصلے کو پارٹی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ اس معاملے پر شہباز شریف کو سپورٹ کرنے والے لیگی رہنمائوں کا موقف تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے آصف زرداری سے اچھے تعلقات ہیں، لہٰذا انہیں مشترکہ صدارتی امیدوار نامزد کر کے پیپلز پارٹی کو پھنسایا جا سکتا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق نون لیگ کے چند رہنمائوں کو مولانا فضل الرحمن کی نامزدگی پر اعتراض تھا اور ان کا کہنا تھا کہ صدارتی امیدوار پارٹی کے کسی رہنما کو ہونا چاہئے، لیکن یہ تجویز مسترد کر دی گئی۔
اپوزیشن اتحاد کی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کئے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے آصف زرداری کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں اپنی پرانی دوستی کا حوالہ دے کر منانے کی کوشش کی۔ مولانا کا اصرار تھا کہ پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کو دستبردار کرا کے ان کو ووٹ دے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ جس کے بعد 4 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل اپوزیشن کے متحد ہونے کا امکان مزید کم ہو گیا ہے۔ تاہم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ قیدیوں سے ملاقات کے لئے مختص دن جمعرات کو اڈیالہ جیل میں نواز لیگ کا ’’مشاورتی اجلاس‘‘ متوقع ہے۔ جس میں شہباز شریف اور دیگر پارٹی رہنما بھی شرکت کریں گے۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر پارٹی رہنما نئی صورت حال سے متعلق میاں صاحب کی گائیڈ لائن لیں گے۔ جس میں صدارتی امیدوار کے طور پر اعتزاز احسن کا نام واپس لینے سے پیپلز پارٹی کے انکار اور اپوزیشن اتحاد کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کی نامزدگی سمیت دیگر معاملات شامل ہیں۔ لیگی ذرائع کے مطابق ایک بار پھر یہ کوشش کی جائے گی کہ کسی طرح اعتزاز احسن کو قبول کرنے پر نواز شریف کو قائل کر لیا جائے۔ اگرچہ اس معاملے پر نواز شریف کو منائے جانے کا امکان بہت کم ہے۔ لیکن اگر میاں صاحب راضی ہو جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں صدارتی الیکشن کے عین موقع پر مولانا فضل الرحمن کو دستبردار کرا کے اعتزاز احسن کو اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کے ووٹ مل سکتے ہیں۔
شہباز شریف سے قریب مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک اہم عہدیدار کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدارتی انتخاب کے امیدوار کے معاملے پر نواز شریف سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ اعتزاز احسن کے بارے میں میاں صاحب کی رائے تبدیل ہو جائے۔ اسی طرح یہ بھی خارج از امکان ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی دوستی کو پیش نظر رکھتے ہوئے آصف زرداری، اعتزاز احسن کو دستبردار کرانے پر راضی ہو جائیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی مجبوریاں دوسری ہیں۔ عہدیدار نے بتایا کہ جب نون لیگ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار کے طور پر حمزہ شہباز کے لئے پیپلز پارٹی کی سپورٹ درکار تھی تو اس سلسلے میں مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے۔ مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر ہیں اور آصف زرداری کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ شہباز شریف جب مخدوم احمد محمود کے گھر گئے اور حمزہ شہباز کے لئے پیپلز پارٹی کی سپورٹ مانگی تو مخدوم احمد محمود نے انہیں ایک عجیب سا مشورہ دیا۔ مخدوم احمد محمود کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ شریف برادران کے خلاف ہے، اگر وزارت اعلیٰ کے لئے آپ اپنا امیدوار تبدیل کر دیں تو بات بن جائے گی۔ جس پر شہباز شریف نے استفسار کیا کہ پھر نون لیگ کسے اپنا امیدوار نامزد کرے؟ مخدوم احمد محمود کا کہنا تھا کہ نون لیگ سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا امیدوار نامزد کر دے۔ عہدیدار کے بقول تاہم شہباز شریف نے مخدوم احمد محمود کی اس تجویز کو مسترد کر دیا اور حمزہ شہباز کو ہی امیدوار برقرار رکھا گیا۔ نتیجتاً نون لیگ کا امیدوار پیپلز پارٹی کی سپورٹ سے محروم رہا۔ پنجاب اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں پی ٹی آئی کے امیدوار عثمان بزدار کو 186 ووٹ ملے اور وہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔ جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے امیدوار حمزہ شہباز 159 ووٹ حاصل کر سکے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے کسی کو بھی ووٹ نہیں ڈالے۔ اس کے سات ارکان میں سے پانچ ایم پی ایز ووٹنگ کے موقع پر اسمبلی سے باہر چلے گئے۔ ایک رکن اسمبلی میں موجود رہا، لیکن اس نے ووٹ نہیں ڈالا۔ جبکہ ایک رکن اس روز اسمبلی آیا ہی نہیں تھا۔ عہدیدار کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے کم و بیش یہی کہانی وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی دہرائی گئی، جب نون لیگ کے امیدوار شہباز شریف کو پیپلز پارٹی کے ارکان نے ووٹ نہیں دیا۔
اڈیالہ جیل میں نواز شریف کی مصروفیات کے بارے میں لیگی عہدیدار کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نے رت جگوں کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔ ساری رات قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے ہیں، جس میں سیرت نبویؐ کی سوانح حیات شامل ہے۔ تہجد اور فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سوتے ہیں۔ قریباً صبح دس بجے بیدار ہوتے ہیں (تاہم عدالت میں پیشی والے روز جلدی سو کر اٹھ جاتے ہیں)۔ اس کے بعد ناشتہ کرتے ہیں اور ساتھ اخبارات کا مطالعہ جاری رہتا ہے۔ نواز شریف کو دو اخبارات فراہم کرنے کی اجازت ہے۔ انہیں روزانہ جنگ اور ڈان دیئے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار تیسرے اخبار کے طور پر دی نیوز پہنچا دیا جاتا ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ ان اخبارات کو پڑھنے کے بعد نواز شریف کو ملک کی موجودہ صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی پارٹی کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں فراہم کئے گئے ٹی وی میں صرف پی ٹی وی چینل دستیاب ہے۔ لہٰذا نواز شریف کا زیادہ تر انحصار اخبارات پر ہے۔ عہدیدار کے بقول نواز شریف نے اب تک پی ٹی وی صرف دو مواقع پر دیکھا ہے۔ ایک الیکشن والے روز انہوں نے پی ٹی وی پر نتائج دیکھے تھے۔ جبکہ بطور وزیر اعظم عمران خان کا قوم سے براہ راست خطاب بھی پی ٹی وی پر دیکھا۔ عہدیدار کے مطابق دوپہر کے کھانے کے بعد نواز شریف کچھ آرام کرتے ہیں۔ شام کو مغرب سے کچھ دیر پہلے ان کا سیل نصف گھنٹے کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب وہ چہل قدمی کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے سیل کے اردگرد واقع کمروں میں کسی اور قیدی کو نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ چہل قدمی کے دوران بھی وہ دیواروں سے ہی باتیں کرتے ہیں۔ عہدیدار کے بقول صدارتی الیکشن کے حوالے سے جو ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے، اخبارات کے توسط سے نواز شریف اس سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ لہٰذا جمعرات کو جب پارٹی رہنما ان سے ملنے جائیں گے تو وہ اس معاملے پر تجاویز دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں گے۔
٭٭٭٭٭