مرزا غالب نے نواب مرزا کے خوبصورت سراپے کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ نواب مرزا کے چہرے پر ہچکچاہٹ اور شک کے سے آثار تھے، لیکن بدن کے سبھاؤ میں اعتماد تھا، کمر سیدھی تھی اور نگاہ مرزا صاحب پر۔ کشیدہ قامتی کی وجہ سے نواب مرزا کا پورا بدن کوٹھری کی دہلیز میں سما گیا تھا۔ مرزا صاحب نے ہاتھ پھیلایا اور خوش ہو کر بولے: ’’اماں تم ہی نواب مرزا ہو، بھائی شمس الدین احمد کے بیٹے۔ آؤ آؤ میں تو تمہیں ہی ڈھونڈ رہا تھا‘‘۔ انہوں نے نواب مرزا کا گال تھپتھپایا اور اسے اندر آجانے کا اشارہ کرتے ہوئے قمر الدین راقم کے کان ہلکے سے پکڑ کر کہا ’’اندر آجا بیٹے، آرام سے پھسکڑا مار کر بیٹھ‘‘۔ پھر انہوں نے ظہیر کا شانہ چھوا اور بولے ’’آؤ میاں ظہیر اندر آجاؤ، دہلیز پہ کیوں کھڑے ہو‘‘۔ میرزا صاحب نے تینوں کو یوں بٹھایا کہ نواب مرزا ان کے دائیں جانب، لیکن ذرا آگے کی طرف اس طرح کہ دونوں کم و بیش آمنے سامنے تھے۔ ظہیر دہلوی سیدھے دائیں جانب اور راقم بائیں طرف کو بیٹھے۔ یہ سب اس خوش اسلوبی سے ہوا گویا اپنے آپ ہی ہوگیا ہو۔ غالب صاحب نے نواب مرزا کی طرف تحسینی آنکھ سے دیکھا اور بولے: ’’اجی اس وقت تم اچھے آ نکلے۔ ساری دلی میں آپ کے شہرے ہیں اور نہیں ملنا ہو رہا ہے تو مجھی سے‘‘۔ پھر انہوں نے بڑے شستہ، کھلے ہوئے اور دلکش لہجے میں شعر پڑھے
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ
’’صاحب زادے ہم تو آج تم سے وہی غزل سنیں گے۔ اے سبحان اللہ، یہ عمر اور یہ مضموں یا بیاں۔ سچ ہے صاحب، خدا جس کو دے… لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم لوگ کھاؤ گے کیا‘‘۔ پھر ذرا ٹھہر کر ایک خفیف سے شرارت بھرے تبسم سے مرزا غالب صاحب بولے ’’… اور پیو گے کیا؟‘‘۔
نو عمر مہمان ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا جواب دیں، کس طرح بحسن و خوبی عذر کر دیں کہ ہمیں بھوک نہیں ہے کہ ایک بوڑھا لیکن تندرست نوکر، کرتے پاجامے میں ملبوس، شانے پر سوتی لیکن ربگین اور صاف رومال سموسہ کیا ہوا، گلے میں چاندی کا کنٹھا، دائیں ہاتھ کی کلمے کی انگلی میں فیروزے کی انگوٹھی ایک بڑی تھالی میں انواع و اقسام کے خشک میرے لئے حاضر ہوا۔
’’ اے لو بھئی میاں کلیان خود ہی آگئے‘‘۔ غالب صاحب نے ہنس کر کہا۔ ’’جانتے ہیں کہ رئیسوں کے بیٹے ہیں، مقوی ہی مال کھائیں گے‘‘۔
میرزا صاحب نے قمرالدین راقم کی گردن پر ہاتھ رکھ کر اسے تھالی پر جھکایا اور کھلکھلا کر ہنسے: ’’اے چھوکرے، دانتوں سے اٹھا اٹھا کر منہ میں رکھ۔ سب لوگ دیکھیں تو سہی کہ شیر کا بچہ ہے، یہ دو ایک دانے اٹھاکر ٹونگنا تو مرغیوں کی حرکت ہے!‘‘۔
مرزا صاحب نے قمر الدین کی گردن یوں ہی جھکائے رکھی، لیکن ان کے ہر لفظ اور ہر عمل سے محبت اور خوش طبعی پھوار کی طرح ٹپک رہی تھی۔ ’’نواب مرزا، آپ جانتے ہو، اس لڑکے کا باپ میرا بھتیجا ہے۔ اس اعتبار سے اس کا دادا ہوں، اور دلدادہ بھی‘‘۔
مرزا صاحب کی کھلی ہوئی لیکن متین ہنسی میں عجب متعدی رنگ تھا کہ سبھی ہنس پڑے۔ نواب مرزا نے دل میں کہا، میں ناحق ہی گھبرا رہا تھا۔ وہ میرزا نوشہ ہی کیا جو وقت اور حالات کی مناسبت سے صحیح اور خوشگوار بات نہ کہیں۔ نواب مرزا کو بخوبی معلوم تھا کہ اسی قمرالدین راقم کے دادا خواجہ حاجی کو مرزا صاحب نے بارہا بے ایمان بلکہ چور ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ خواجہ حاجی کی ہم سے کوئی قرابت نہیں ہے، ہماری دادی صاحب مغفور کی ایک بیوہ بھانجی کا بیٹا ہے۔ ہماری دادی نے ازراہ یتیم نوازی و غریب پروری اس بھانجی کی شادی اپنے کسی نوکر سے کر دی تھی۔ خواجہ حاجی اسی عقد کا ثمرہ تھا۔ لہذا ہماری خاندانی پنسن میں خواجہ حاجی کا کچھ بھی حصہ نہ ہونا چاہیے، چہ جائے کہ نصفاً نصف یعنی پانچ ہزار سالانہ اس کو دلوا دیئے جائیں۔ یہ اور بات کہ مرافعات اور پیرویاں غالب صاحب کی سب رائیگاں گئی تھیں۔ خواجہ حاجی برابر پانچ ہزار سالانہ پر قابض رہا تھا اور اب اس کے دونوں بیٹے شمس الدین عرف خواجہ جان، اور بدر الدین عرف خواجہ امان اس پنسن کے مالک تھے۔
جب ہنسی تھمی اور ماحول سنجیدہ ہوا تو میرزا صاحب نے نواب مرزا سے پہلے تو رخ روشن والی غزل سنی اور دل کھول کر داد دی۔ پھر انہوں نے ظہیر سے پوچھا، ’’کیوں میاں، کچھ کہہ کے لائے ہو؟‘‘۔
’’حضرت سلامت میں بہت شرمندہ ہوں، ادھر کچھ خاص فکر شعر نہ ہو سکی‘‘۔
’’بھلا کیوں؟‘‘۔
’’جی، وہ قلعہ معلیٰ میں نوکری کے کچھ قرائن ہیں…‘‘۔
’’جناب بجا فرماتے ہیں۔ یہ حقیر بسنم دواز دہ سالگی خدمت داروغگی قوربیگی پر سرفراز کیا گیا تھا، آج سے کوئی عرصہ چھ سات سال کا ہوتا ہے۔ لیکن اب… ذرا افزونی عہدہ اور تفویض کارخانہ جلوس شاہی مثل ماہی مراتب وغیرہ کی بات ہے۔ لہذا کئی کئی بار حضور میں بلاوا ہوتا ہے، جان سولی پر اٹکی رہتی ہے‘‘۔
’’خوب، تو مبارک ہو، مولا چاہیں گے تو سب کام بن جائیں گے‘‘۔
’’سرکار کی دعاؤں کا محتاج ہوں۔ پر ان دنوں تو میاں داغ کی طبع وقار چمکی ہوئی ہے‘‘۔
’’اجی اس غزل کو سن کر تو مدعی بھی قائل ہوجاویں۔ میاں نواب مرزا، کبھی کبھی ملتے رہیو، اور ہاں دیکھیو، اب کے آئیو تو شیخ جرأت کی زمین میں غزل کے ساتھ۔ مطلع سنتے ہو صاحب
نہ لوٹنا دل پر اضطراب سے چھوٹا
بلا سے جان گئی میں عذاب سے چھوٹا‘‘
مرزا غالب نے سامعین کی داد کے دوران جرأت کا مطلع دوبارہ سنایا اور کہا ’’ہے ہے نہ لوٹنا دل پر اضطراب سے چھوٹا اور چھوٹا تو جان نکلنے کے بعد ہی، کہ عالم جاںکنی کا خود ہی تشنج کا عالم ہے، سبحان اللہ‘‘۔
’’میری بساط کیا ہے لیکن اعلیٰ حضرت کے اتثال امر میں کچھ جگر کاوی کروںگا‘‘۔ نواب مرزا نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا۔
’’بہت خوب‘‘۔ مرزا غالب بولے۔ ’’اور میاں ظہیرالدین، تم بھی کچھ کہہ لانا‘‘۔ ایک لحظہ توقف کے بعد انہوں نے اسی متین لیکن خوشگوار لہجے میںکہا: ’’حاشا میری نیت کوئی تم دونوں میں مکابرت قائم کرنے کی نہیں۔ لیکن زمین اچھی ہے اور میاں ظہیر بھی نہایت درجہ خوش فکر شاعر ہیں‘‘۔
’’مہربانی ہے حضور کی۔ میں بھی کچھ ہاتھ پاؤں ہلاؤں گا‘‘۔ ظہیر نے جواب دیا۔ پھر نو عمر مہمانوں نے اٹھ کر تین تین بار تسلیمیں کیں اور ’’اب اجازت مرحمت ہو‘‘ کہہ کر مرزا غالب صاحب کی طرف پشت کئے بغیر دہلیز پر آکر جوتیاں پہنیں اور نیچے گلی میں آگئے۔
’’اچھا ہوا کہ ہم بچ نکلے۔ میرزا صاحب نے ہم سے نہیں کہا۔ ’’قمرالدین راقم نے لمبی سانس لے کر کہا۔
’’اس کا باعث آپ کی نو عمری تھوڑی ہے‘‘۔ ظہیر نے کہا۔ ’’اصل بات یہ ہے کہ مرزا غالب صاحب یہ نہیں چاہتے کہ شہر والوں کو بدابدی کرنے کا موقع ملے‘‘۔
’’بدابدی کیا؟‘‘ راقم نے پوچھا۔
’’اجی بے وقوف، سارا شہر جانتا ہے کہ میرزا صاحب قمار کا ذوق بے اندازہ رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے تین تین نوسکھیوں کو بیک وقت ایک ہی زمین میں طبع آزمائی کو کہا تو یاروں کو گمان ہوگا کہ یہ بھی کوئی جوئے کی شرط کا معاملہ ہے۔ پھر تو میاں سارے شاہجاں آباد میں ہم لوگوں پر شرطیں لگنے لگیں گی‘‘۔
’’اللہ تیری پناہ!‘‘۔ راقم اور داغ کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔ پھر نواب مرزا نے کہا: ’’یہ شہر ہے کہ مقامر خانہ۔ یہاں والوں کو اور کچھ کام ہی نہیں‘‘۔
’’بیٹے اور کیا‘‘۔ ظہیر نے کہا۔ ’’یہ جوئے کی لت کوئی ایسی ویسی لت نہیں، پوری علت ہے۔ دلی والوں میں تو بات بات پر شرط لگتی ہے، بلکہ بے بات کی باتوں پر اور بھی زیادہ شرطیں لگتی ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭