ضروری معلومات سے مسلح ہو کر میں مہمان پذیر زنجان فیروزکوہ سے باہر نکلا، بس اسٹاپ پر پہنچا اور پانچ سو ریال کا ٹکٹ لے کر (صحیح کرایہ 200 ریال تھا) بس پر سوار ہوا اور سیدھا میدان ولی عصر یعنی ولی عصر کے چوراہے پر پہنچ گیا اور وہاں سے مارچ کرتا ہوا خیابان ولی عصر پر واقع ایران کی نیشنل اسٹیل کارپوریشن (نسکو) کے ہیڈ کوارٹر کی کئی منزلہ عمارت پر پہنچ گیا، تاکہ وہاں سے ایرانی کوئلے اور ’کوک‘ کے کوائف حاصل کر سکوں اور اس کارپوریشن کے چیئرمین سے مل کر انہیں نوکنڈی اسٹیل مل کے منصوبے کے بارے میں آگاہ کر کے یہ معلوم کر سکوں کہ آیا وہ اس سلسلے میں بذریعہ فراہمی کوکنگ کوئلہ اور ’کوک‘ ہماری مدد کر سکیں گے یا نہیں۔ میں پاکستان سے اس سلسلے میں انہیں ایک خط پہلے ہی روانہ کر چکا تھا اور اس خط کی نقل میرے پاس تھی۔
’نسکو‘ کے استقبالیہ ہال میں پہنچا تو وہاں خاصا عجیب اور ’غیر دوستانہ‘ ماحول پایا۔ یہ استقبالیہ ہال نسکو بلڈنگ کے گرائونڈ فلور پر تھا۔ ہال کے تقریباً درمیان میں ایک میز و کرسی بچھی تھی، جس پر استقبالیہ کے خونخوار قسم کے انچارج صاحب براجمان تھے اور ان کے چاروں طرف امیدواروں کا خاصا مجمع لگا تھا۔ کچھ صاحبان جن کو انتظار کرنے کا حکم ملا تھا، وہ سائیڈ میں چہرے پر اداس اور ناامیدی کا غازہ ملے رنجیدہ خاطر کھڑے تھے۔ پہلے میں نے کچھ دیر صورت حاصل کا ذرا دور سے جائزہ لیا اور نوٹ کیا کہ انچارج صاحب جو کہ خاصے بددماغ اور تندخو نظر آتے تھے اکثر ملاقات (نسکو کے کسی افسر سے) کے خواہشمند حضرات کو اپنی بات پوری کئے بغیر ہی نامنظور کر رہے تھے۔ کسی کو آئندہ آنے اور پھر قسمت آزمانے کا مشورہ دے کر ٹرخایا جارہا تھا۔ بہت کم خوش قسمت ایسے تھے، جنہیں اوپر جانے کی چٹ مرحمت کی جارہی تھی۔ یہ بھی نوٹ کیا کہ استقبالیہ کے انچارج کا رویہ ان لوگوں کے ساتھ کچھ بہتر ہے جو انگریزی بول رہے تھے۔ سائیڈ میں کھڑے ہوئے اور صورت سے پریشاں حال نظر آنے والے ایک مقامی نوجوان سے دریافت کیا کہ بیٹا یہ کیا معاملہ ہے اور یہ کہ تم کس انتظار میں سائیڈ میں کھڑے ہو؟ وہ غریب بولا کہ میں ایک طالب علم ہوں، مجھے نسکو کی لائبریری میں کچھ تکنیکی لٹریچر سے استفادہ کرنا ہے اور میں پچھلے پانچ روز سے یہاں آرہا ہوں۔ مجھے یہ انچارج صاحب انتظار کے لیے کہتے ہیں۔ پھر انتظار کرا کے کہتے ہیں کہ کل آئیے۔ یہ معلومات حاصل کر کے میں نے ہمت کی اور استقبالیہ انچارج کے روبرو پہنچا۔ پہلے اپنا وزیٹنگ کارڈ ان کو تھمایا، پھر زبانی مختصراً اپنا تعارف کرایا اور عرض کی کہ میں چیئرمین نسکو سے ملاقات کا خواہشمند ہوں، برائے مہربانی مجھے ان تک بھجوا دیجئے یا کسی ایسے متعلقہ افسر کے پاس بھجوا دیں جو ان سے میری ملاقات کروا سکے۔ انچارج صاحب نے پہلے میرے کارڈ کو الٹ پلٹ کر دیکھا، جس سے میں نے جان لیا کہ وہ اکثر و بیشتر ایرانیوں کی طرح انگریزی سے بالکل نابلد ہیں۔ پھر فوراً ہی فیصلہ صادر فرما دیا کہ ’’یہ ممکن نہیں ہے‘‘۔ اور اس کے بعد دوسرے امیدوار سے مخاطب ہو گئے اور مجھے بالکل ہی نظرانداز کر دیا۔ اس پر میں امیدواروں کی بھیڑ سے باہر نکل آیا اور کچھ دیر سوچ کر اور اپنی نئی حکمت عملی بنا کر پھر انچارج صاحب کے روبرو گیا۔ ان کی میز پر میں نے اس انگریزی خط کی نقل رکھی، جو میں نے چیئرمین نسکو کو اسلام آباد سے لکھا تھا اور پھر اپنی نئی، گو غیر اخلاقی، حکمت عملی کے تحت اپنی بے ربط بلکہ مہمل انگریزی میں زور زور سے بولنا بلکہ ’بکواس‘ کرنا شروع کر دیا۔ اپنی بے ربط اور مہمل انگریزی جملوں کے درمیان البتہ میں گاہے گاہے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کا نام، گاہے چیئرمین نسکو کا نام، گاہے کرمان کول کمپنی کے منیجر کا نام اور گاہے اصفہان اسٹیل مل کر افسر مہمان داری جناب باقر زادہ کا نام ضرور لیتا رہا۔ آواز اور لہجہ میں نے اپنا اتنا بلند رکھا کہ جتنا میرا گلا اجازت دیتا تھا۔ یہ ’مہمل انگریزی‘ بولتے اور شور مچاتے مجھے چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ اس شخص کے اعصاب جواب دے گئے جو ابھی تک دوسرے تمام لوگوں کے اعصاب کو توڑ پھوڑ رہا تھا۔ معاً اس تندخو شخص نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے رکنے کو کہا اور پھر کورے کاغذ کی ایک چٹ اٹھائی، اس پر کچھ لکھا، چٹ تھمائی اور کہا کہ ’’اوپر جائو‘‘۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا کہ میں یہاں پہلی بار آیا ہوں۔ نہ کسی شخص سے واقف ہوں نہ عمارت کے جغرافیے سے، برائے مہربانی میرے ساتھ کسی کو کر دیجئے کہ مجھے وہاں تک لے جائے جہاں مجھے جانا ہے۔ وہ ’شریف آدمی‘ مجھ سے اور میری مہمل انگریزی سے اتنا تنگ آگیا تھا کہ فوراً ہی ایک شخص کو بلایا اور اسے چٹ دے کر میرے ساتھ کر دیا۔ مگر میں سیدھا اوپر نہ گیا، بلکہ پہلے اس ایرانی نوجوان طالب علم کے پاس گیا، جس سے پہلے مل کر اس کی داستان ناکامی سن چکا تھا۔ اس نے چھوٹتے ہی مجھ سے شستہ انگریزی میں کہا (پہلے میں نے بھی اس سے انگلش میں ہی بات کی تھی) کہ آپ نے جو کچھ کیا بالکل ٹھیک کیا۔ یہ لوگ اپنے ساتھ ایسا ہی سلوک کئے جانے کے حق دار ہیں۔ میں نے کہا کہ بیٹا، مجھے بہت افسوس ہے کہ میں بہت زیادہ خواہشمند ہونے کے باوجود تمہاری کوئی مدد کرنے سے قاصر ہوں اور اپنی مدد بھی میں نے بڑے غیر مہذب طریقے سے کی ہے، جس کے لیے میں شرمندہ ہوں۔ وہ نوجوان بولا کہ آپ فکر نہ کریں میرا اللہ مالک ہے۔
مجھے جن صاحب کے پاس بھیجا گیا تھا وہ تھے جناب رضانو بخش صاحب سینئر ماہر شعبہ خریداری نسکو۔ یہ صاحب روانی سے انگریزی بولنے والے سنجیدہ اور پر تجسس نگاہ رکھنے والے ایک مہربان شخص تھے۔ انہوں نے مجھے شریفانہ انداز میں خوش آمدید کہا اور عزت کے ساتھ مجھے اپنے مقابل بچھی کرسی پر بٹھایا۔ میں نے اپنا تعارفی کارڈ پیش کرتے ہوئے اپنا اور نوکنڈی اسٹیل مل کے منصوبے کا مختصر تعارف اور اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کی دلچسپی کا حال بتایا۔ ڈاکٹر قدیر خاں صاحب کا نام سن کر رضا صاحب چونکے اور مجھ پر نظریں گاڑھتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کو ڈاکٹر قدیر خاں صاحب نے بھیجا ہے؟ جناب ایسا ہی ہے، میں نے جواباً عرض کیا۔ اس پر رضانوبخش صاحب گویا ہوئے کہ کیا وہ آپ سے اس وقت بات کرنا پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے قوی امید ہے کہ وہ اس وقت مجھ سے بات کرنا اور ابھی تک کی گئی ایران میں میری پیش رفت جاننا پسند فرمائیں گے۔ رضا صاحب بولے کہ کیا آپ کے پاس ان کا ٹیلی فون نمبر موجود ہے؟ میں نے فوراً ہی اپنی ذاتی ڈائری سے دیکھ کر ڈاکٹر قدیر صاحب کے آفس کا فون نمبر انہیں بتا دیا جو انہوں نے اپنے سامنے رکھی کسی نوٹ بک پر لکھ لیا۔ پھر ٹیلی فون کا ریسیور اٹھایا، نظریں میرے چہرے پر جمائیں اور بولے کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ سے بات کرنا پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے بفضل تعالیٰ مکمل یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس وقت، بشرطیکہ وہ کسی اہم سرکاری میٹنگ میں مصروف نہ ہوئے، مجھ سے نہ صرف بات کریں گے بلکہ بخوشی بات کریں گے۔ اس لیے کہ میں جب سے ایران آیا ہوں نہ ان سے بات چیت کر سکا ہوں نہ ہی اپنے کام کے سلسلے میں انہیں کوئی پیش رفت رپورٹ ہی بھیج سکا ہوں۔ رضا صاحب نے یہ سن کر ٹیلی فون کے ڈائل پر اپنی انگلی رکھی، میرے چہرے پر اپنی نظریں جمائیں اور ایک دفعہ پھر مجھ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ سے بات کرنا پسند کریں گے؟ میں نے پھر پورے اعتماد سے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر انہوں نے ریسیور ٹیلی فون سیٹ پر واپس رکھ دیا اور مطمئن ہوکر اپنی دفتری کرسی کی پشت پر اپنی پشت ٹکا کر آرام سے بیٹھ گئے، ساتھ ہی میرے اور اپنے درمیان میز پر رکھا ایک بڑے گتے کے ڈبے کا ڈھکن اٹھا دیا، جس کے نیچے رکھے ہوئی کئی قسم کے بیکری کے بسکٹ مجھے دعوت طعام دے رہے تھے۔ چائے پہلے ہی رکھی جا چکی تھی، جس کی طلب کافی دیر سے مجھے پریشان کررہی تھی۔ دراصل میدان ولی عصر سے نسکو ہیڈ کوارٹر پہنچتے ہوئے میں ایک جگہ بھٹک گیا تھا اور اس طرح اضافی پیدل مارچ کرنا پڑا، پھر نسکو کے مہتمم استقبالیہ کو بھگتانے اور ان صاحب سے مسلسل ’مخصوص‘ انگریزی بولنے میں بھی میری کافی قوت خرچ ہو چکی تھی اور میں محسوس کر رہا تھا کہ پیٹ میں کچھ جانا چاہئے، تاکہ میں اپنے مد مقابل صاحبان سے احسن طریقے سے نمٹ سکوں اور ان کو اپنی مدد پر آمادہ کر سکوں۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس کا بندوبست کر دیا اور بہت اچھا بندوبست کر دیا۔ بسکٹوں کے متذکرہ بڑے ڈبے میں کئی اقسام کے بسکٹ تھے۔ مجھ حقیر و بسیار خور نے ہر قسم بسکٹ سے ایک ایک دانہ اٹھانا شروع کیا۔ ابھی بسکٹوں کی تمام اقسام کو چکھ بھی نہ پایا تھا کہ نیت و پیٹ دونوں بھر گئے اور چائے کی پیالی میں چائے بھی ختم ہو گئی۔ ناچار مجھے رضا صاحب کے لذیذ بسکٹوں کے ڈبے سے ہاتھ کھینچنا پڑا۔ یہ حقیقت مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ لذیذ بسکٹوں کے بڑے ڈبے کی آسانی صرف رضا صاحب تک محدود نہ تھی، بلکہ نسکو جیسی دیگر نفع کمانے والی کمپنیوں کے تمام سینئر افسروں کو یہ آسانی علاوہ دیگر آسانیوں کے حکومت ایران کی طرف سے مہیا کی جاتی ہے۔
رضا صاحب نے میری اصلیت سے مطمئن ہو جانے کے بعد میری تمام معروضات کو بڑی توجہ سے سنا اور گاہے گاہے خاص خاص چیزیں نوٹ بھی فرماتے رہے۔ میں نے ان کی خدمت میں اس خط کی نقل بھی پیش کر دی، جو میں نے نسکو کے چیئرمین صاحب کو اپنی وزٹ کے بارے میں اسلام آباد سے لکھا تھا۔ آخر میں رضا صاحب نے مجھے بتایا کہ چیئرمین نسکو سے آپ کی ملاقات سردست نہ ہو سکے گی کیونکہ وہ ہیڈ کوارٹر میں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آپ کو اصل مدد اور رہنمائی نسکو کے پروڈکشن ڈپارٹمنٹ سے ملے گی، جو قریب ہی دانش کیا اسٹریٹ پر واقع ہے۔ انہوں نے میرے خط کی کاپی بھی مجھے اس ہدایت کے ساتھ واپس کر دی کہ میں یہ نقل پروڈکشن ڈپارٹمنٹ کے منیجر پالیسدار صاحب کو دے دوں۔
٭٭٭٭٭
Next Post