امت رپورٹ
شمالی وزیرستان میں امن کو خراب کرنے کیلئے پی ٹی ایم اور دیگر عناصر نے سوشل میڈیا پر سیکورٹی اداروں کیخلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور مقامی ذرائع کے مطابق شین ڈنڈ میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر احتجاج کے دوران دو مظاہرین نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ جس کے بعد جرگے سے مذاکرات کے دوران یقین دلایا گیا تھا کہ انکوائری کے بعد ملوث افراد کیخلاف کارروائی کی جائیگی۔ تاہم پی ٹی ایم کی جانب سے سوشل میڈیا پر پروپیگیڈا کیا جارہا ہے کہ فائرنگ میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کورٹ مارشل کے وعدے پر عمل کیا جائے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 23 اگست کو عید کے دوسرے روز شمالی وزیرستان کے علاقہ ڈنڈکلے میں پاکستان آرمی کے بم ڈسپوزل سکواڈ علاقے کو بارودی سرنگوں سے پاک کرنے کیلئے کام کر رہے تھے کہ ایک بارودی سرنگ کے دھماکے سے پاکستان آرمی کے حوالدار احمد خان شہید اور تین سپاہی زخمی ہو گئے۔ بعدازاں سیکورٹی اداروں نے ڈنڈ کلے سمیت دیگر علاقوں میں سر چ آپریشن شروع کیا اور مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا، جس کے بعد مقامی لوگوں نے، جن میں زیادہ تر پی ٹی ایم کے حامی شامل تھے، ان گرفتاریوں پر احتجاج کیا اور سیکورٹی ادارے کی چیک پوسٹ پر نعرے بازی کرتے ہوئے اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی بھی کی۔ اس دوران نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک نوجوان جاں بحق اور چار افراد زخمی ہوگئے، بعدازاں ایک زخمی بھی چل بسا۔ جس پر پشتون تحفظ موومنٹ کے سابق بانی رکن اور شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی قیادت میں میرانشاہ اسپتال کے سامنے دھرنا دیا گیا، جو تین روز تک جاری رہا۔ دھرنے میں سیکورٹی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ ذرائع کے بقول سیکورٹی اداروں کی جانب سے مقامی قبائل کو بتایا گیا کہ پی ٹی ایم اور قبائلیوں کے مطالبے پر ہی بم ڈسپوزل اسکواڈ بارودی سرنگیں صاف کرنے کا کام کر رہا ہے۔ اس سکواڈ کو نشانہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ بعض عناصر وزیرستان میں امن نہیں چاہتے۔ اس واقعہ کے بعد سیکورٹی اداروں نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کیا تاکہ بم ڈسپوزل سکواڈ اپنا کام جاری رکھ سکے۔ تاہم محسن داوڑ اور ان کے ساتھیوں نے دھرنا دیکر الزام لگایا کہ سیکورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی ہے۔ جس پر اتوار کی رات سیکورٹی اداروں اور جرگہ کے درمیان مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ واقعہ کی تحقیقات کی جائے گی، اگر سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ لیکن پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ سیکورٹی ادارے، اہلکاروں کے کورٹ مارشل کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی اداروں کا موقف ہے کہ جرگے میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ تحقیقات کے نتیجے میں جو لوگ ذمہ دار قرار پائے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ تاہم پی ٹی ایم نے سوشل میڈیا پر سیکورٹی اداروں کے خلاف محاذ کھول رکھا اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ کس جانب سے ہوئی یہ بات تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے گی، جس کا وعدہ سیکورٹی اداروں نے اتوار کی شب ہونے والے مذاکرات میں کیا تھا، تاہم تحقیقات سے قبل ہی پی ٹی ایم کے کارکنوں نے جھوٹا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے اور تحقیقات سے قبل ہی فوجی افسران کے نام لیکر ان کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ادھر ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات پر پہلے سے عمل ہورہا ہے اور ہر چیک پوسٹ پر خاصہ دار فورس بھی تعینات ہے۔ لیکن پی ٹی ایم کے لوگ تحقیقات کے بجائے خود فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ بعض عناصر علاقے میں فوج کی جانب سے کی جانے والی امن کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ فوجی جوان گزشتہ کئی ہفتوں سے شمالی وزیرستان کے علاقوں کو بارودی سرنگوں سے صاف کر رہے ہیں، جو قبائلیوں کا دیرینہ مطالبہ تھا، لیکن اب بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ علاقے سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ نہ ہوسکے۔ ضلعی انتظامیہ نے متنبہ کیا ہے کہ کسی کو امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آرمی بہت سے منصوبوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی بھی کام کر رہی ہے، لہذا ایک مختصر وقت کیلئے کرفیو لگایا جاتا ہے، کیونکہ سیکورٹی اداروں کے خلاف حملے اب بھی ہو رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے ایک ذمہ دار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی ذمہ دار قرار پایا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، تاہم تحقیقات کیلئے وقت چاہئے۔ دوسری جانب پی ٹی ایم کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دھرنا ختم نہیں کیا بلکہ ایک ماہ کیلئے ملتوی کیا گیا ہے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں محسن داوڑ کے حلقے میں خواتین کے ووٹوں کی شرح انتہائی کم رہی ہے اور قوی امکان ہے کہ وہاں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا جائے، اس لئے محسن داوڑ اور ان کے ساتھی پریشانی کا شکار ہیں۔ ذرائع کے بقول بحیثیت رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا فرض بنتا ہے کہ وہ مشتعل عوام اور انتظامیہ کے درمیان پل کا کردار ادا کریں اور دونوں جانب کے تحفظات کو دور کریں اور اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھائیں۔ لیکن وہ اور ان کے ساتھی اس مسئلے کو سڑکوں پر حل کرنا چاہتے ہیں تاکہ مزید اشتعال پھیل جائے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post