چھیدی نے شہباز شریف پر بندوق تان لی تھی

0

ابو واسع
یونس پچر نے پولیس اور باڑلا گروپ کا چار گھنٹے تک اکیلے مقابلہ کیا۔ یونس پچر کی ساری زندگی کشت و خون میں گزری تھی، وہ بہت سمجھدار انسان تھا۔ لیکن اچھو اور چھیدی بدلے کی آگ میں جل رہے تھے، ان کے سینے پر اپنے باپ کے قتل کا گھائو تھا، جو یونس کے خون سے ہی مندمل ہوسکتا تھا۔ اس وقت یہی یونس پچر ان کے گھیرے میں تھا، لیکن وہ بدستور مقابلہ کر رہا تھا۔ یونس کے پاس اتنا اسلحہ کیسے آیا کہ وہ درجنوں لوگوں کے خلاف اکیلا لڑتا رہا، اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا ’’جہاں یونس لیٹ کر مقابلہ کر رہا تھا، اس کے پیچھے چوہانوں کا ڈیرہ تھا۔ محمد حسین چوہان اور اس کے بیٹے رشید چوہان کا ڈیرہ۔ محمد حسین چوہان یونس کا ہم عمر ہی رہا ہوگا۔ دونوں پچاس کے سن میں تھے۔ بابا محمد حسین زندہ ہے اور اس واقعے کا چشم دید گواہ ہے۔ اتفاق سے یونس اور محمد حسین میں پرانی دوستی بھی تھی۔ محمد حسین نے جب دیکھا کہ گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے تو وہ اپنے ڈیرے سے باہر نکل کر صورت حال کا جائزہ لینے لگا۔ محمد حسین نے آوازدے کر یونس سے پوچھا کہ کون ہو تم؟ تو یونس نے محمد حسین کو آواز دے کر کہا کہ میں یونس پچر ہوں، میری داد رسی کو پہنچو۔ جب محمد حسین نے دیکھا کہ اس کا دوست یونس پچر اکیلا مقابلہ کر رہا ہے تو وہ اسلحہ لے کر اس کی پشت پر پہنچ گیا۔ یونس نے غلام حسین سے کہا کہ تم لڑائی میں شریک مت ہونا، بس مجھے میگزین بھر بھر کر دیتے رہو۔ یوں محمد حسین کلاشنکوف کے میگزین بھرتا رہا اور یونس اکیلا مقابلہ کرتا رہا۔ صرف محمد حسین ہی نہیں، بلکہ اس کی بیوی بھی یونس کی پشت پر آگئی۔ اب وہ مائی تو فوت ہوچکی، لیکن اس وقت اس نے شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ ظالمو تم لوگ ہمارے ڈیرے کی طرف فائرنگ کر رہے ہو۔ ہمارے ڈھور ڈنگر کھڑے ہیں، کیا انہیں مار ڈالو گے۔ ایک طرف یونس کے لواحقین سلیم لاٹیا کے ڈیرے پر رونے پیٹنے میں مصروف ہوگئے کہ یونس پچر باڑلوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ دوسری جانب محمد حسین اور اس کی بیوی نے اسی شور و غوغا میں یونس پچر کو وہاں سے نکال لیا۔ یونس اکا دکا گولی چلاتا ہوا ڈیرے کی طرف سے نکلا، جہاں سے کرنل کے باغ سے ہوتا ہوا راوی پر پہنچ گیا۔ باڑلا اور پولیس وہیں پر فائرنگ میں مصروف رہے۔ بعد میں جب خاموشی چھا گئی تو انہیں معلوم ہوا کہ یونس پچر تو یہاں سے نکل گیا۔ محمد حسین اور اس کی بیوی نے پولیس اور باڑلوں پر چڑھائی کر دی کہ ہمارے ڈیرے پر کیوں فائرنگ کرتے رہے، چنانچہ اسی لے دے میں باڑلے پولیس سمیت واپس ڈیرے پر چلے گئے۔
اچھو اور چھیدی نے بالا گاڈی کے ساتھ مل کر گروپ کو بہت مضبوط کر لیا تھا۔ ان کے بھتے اور ڈاکے مزید بڑھ گئے تھے۔ اسی دوران ایک دو اور قتل ہوئے، جس میں اچھو اور چھیدی اشتہاری قرار دے دئیے گئے۔ اس گروپ کو روحیل اصغر اور صفدر ڈیال کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔ روحیل اصغر اور اخلاق گڈو کی خاندانی دشمنی تھی، جو روحیل اصغر کے باپ شیخ اصغر اور اخلاق گڈو کے باپ ماجھا سکھ سے شروع ہوئی۔ ماجھے کو سکھ اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ سکھوں کی طرح سوچتا اور عمل کرتا تھا۔ اس کی الگ ایک کہانی ہے، جو یہاں مقصود نہیں ہے۔ بہرحال شیخ اصغر اور ماجھا سکھ کی دشمنی دونوں کی اولاد کو وراثت میں ملی۔ اس دشمنی کی بھینٹ جیسے کہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے کہ شیخ اصغر اور اس کے ایک بیٹے کی جان لے چکی تھی۔ جبکہ ماجھا سکھ کا بھی کافی جانی نقصان ہوچکا تھا۔ چونکہ روحیل اصغر سیاست میں آچکا تھا، اس لیے وہ اب ڈائریکٹ کسی صورت سامنے نہیں آتا تھا۔ بلکہ وہ اچھو اور چھیدی کے توسط سے اپنے دشمنوں سے نمٹ رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اچھو اور چھیدی نے روحیل کے لیے پانچ سات قتل کیے تھے۔ اس کے علاوہ اچھو اور چھیدی روحیل اصغر کے لیے انتخابات میں بہت کام آتے تھے۔ ارد گرد کی جتنی چوہدراہٹیں تھیں یا بڑے خاندان تھے، انہیں اپنی دہشت سے ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتے تھے۔ اس وقت ایک بٹ (نام بوجوہ نہیں لکھا جارہا) تھا، جو الیکشن میں حصہ لیتا تھا۔ وہ اپنے وقت میں ایم پی اے منتخب ہوتا تھا۔ الیکشن کے دوران شیخ روحیل اصغر کے ساتھ اس کا مقابلہ تھا تو اس کے پولنگ ایجنٹوں کو باڑلا گروپ اٹھا دیا کرتا تھا، اور ہر کسی کو کہا گیا تھا کہ کوئی بندہ بٹ کو ووٹ نہیں دے گا۔ انہوں نے بٹ کے گھر پر فائرنگ بھی کی تھی۔ غرض اچھو اور چھیدی شیخ روحیل اصغرکے لیے سر دھڑکی بازی لگاتے رہے۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی شہرت میاں برادران تک جا پہنچی۔ چونکہ شہباز شریف کو پروٹوکول سیکورٹی کا زیادہ خیال رہتا تھا، اس لیے وہ اپنے اردگرد اپنے مسلح گارڈ رکھتے تھے۔ یہ گارڈ نامی گرامی لوگ ہوتے تھے، جن کی دہشت پورے علاقے میں ہوتی تھی۔ شہباز شریف نے روحیل اصغر سے ان دونوں کو مانگا۔ اس وقت تک صرف نواز شریف سیاست میں تھے، جبکہ شہباز شریف ابھی سیاست میں آنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اچھو تو جانے پر راضی نہ ہوا، شاید اس لیے کہ وہ ان کے باپ سے بھتہ لیتا رہا تھا، البتہ چھیدی کچھ عرصے کے لیے شہباز شریف کے پاس گیا، لیکن وہ بھی ٹک نہ سکا۔ کسی بات پر شہباز شریف نے اسے برا بھلا کہا تو اس نے ان پر گن تان لی۔ چنانچہ شہباز شریف نے اس سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ دونوں بھائیوں اچھو اور چھیدی کا سیاست سے ہٹ کر اصل مقصد یونس پچر کی موت تھا، جو ابھی تک ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل جاتا تھا۔ خاندانی ذرائع سے ہٹ کر دیگر لوگوں نے جو اس وقت چشم دید گواہ تھے، بتایا کہ اچھو اور چھیدی کو ان کے چچا یوسف اور پھوپھی عنایتاں بی بی کے علاوہ ان کی والدہ مائی جیجو نے بھی کہا تھا کہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینا ہے۔ دونوں پر جب لالی ووڈ میں ’اچھو چھیدی‘ فلم بنانے کے لیے ان کے خاندان سے رابطہ کیا گیا تو خاندان نے اصل حقائق پر فلم بنانے سے منع کردیا، کیونکہ اب یہ دشمنی ختم ہوچکی ہے اور یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ دوبارہ اسے فلم کی صورت لوگوں تک پہنچایا جائے۔ فلم کے پروڈیوسر نے مختلف قسم کی آفرز کی تھیں کہ آپ لوگ اتنے پیسے لے لو اور ہمیں ان پر فلم بنانے دو، لیکن ان کا خاندان راضی نہیں ہوا۔ اس وقت ’کاکا گجر‘ جو اچھو اور چھیدی کا بہت قریبی دوست تھا، اس نے کہا کہ آپ لوگ فلم بنانے دیں، لیکن اس میں نام اور مقامات تبدیل ہوں گے اور واقعات بھی اصل نہیں ہوں گے۔ خاندان کا موقف یہ تھا کہ اب نئی نسل اس دشمنی کو بھول کر اپنے کام کاج میں لگی ہوئی ہے۔ اگر ایسی فلم بنی تو وہ دوبارہ اس جانب مائل ہوسکتے ہیں۔ لیکن کاکا گجر کے کہنے پر فلم کی اجازت دے دی گئی۔ اس فلم میں صرف اچھو اور چھیدی کا نام اصل بتایا گیا، باقی سب الگ کہانی بیان کی گئی ہے۔ اصل سے بالکل مختلف۔ اس فلم میں اچھو چھیدی کی والدہ کا کردار بہت مضبوط دکھایا گیا ہے، کہ وہ بہت حوصلہ مند عورت ہے اور اب بھی اپنے دونوں بیٹے اور شوہر کے قتل ہونے کے باوجود حوصلے سے جی رہی ہے‘‘۔ تاہم خاندانی ذرائع اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ اچھو اور چھیدی کی والدہ نے انہیں اس راستے پر جانے دیا۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ انہیں روکتی تھی۔ جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ باڑلا خاندان کی عورتیں بھی مردوں سے کسی طور کم نہ تھیں، بلکہ وہ بھی اسی دلیری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتیں اور انہیں اپنے دشمن کو ختم کرنے سے کبھی منع نہیں کرتی تھیں۔ یہ دو الگ موقف ہیں۔ اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ اعوان ڈھائیوالا کے لوگ جانتے ہیں۔
خاندانی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی اصل دشمنی پچر گروپ کے تین لوگوں کے ساتھ تھی، جن میں یونس پچر، حسینی عالم پوریا اور سرو چھبیل تھے۔ اس میں سے صرف سرو چھبیل ان کے ہاتھوں بچ رہا، باقی کسی کو نہیں چھوڑا گیا تھا۔ چھیدی اور اچھو اس قدر دلیر ہوچکے تھے کہ وہ نہ صرف لوگوں سے بھتے لیتے، بلکہ انہوں نے بینک بھی لوٹنا شروع کردئیے تھے۔ انہوں نے ایک بار پنجاب بینک پر ڈاکا ڈالا۔ اس وقت کاوا ساکی موٹر سائیکل ہوا کرتا تھا۔ یہ پورا گروپ بینک کا صفایا کرکے نکل رہا تھا کہ عین وقت پر پولیس کو اطلاع مل گئی اور وہ موقع پر پہنچ گئی، آمنے سامنے مقابلہ شروع ہوگیا، جس میں ان کے ساتھ آئے ہوئے پانچ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اچھو کاواساکی موٹر سائیکل پر انور (حاجی انور ابھی بھی زندہ ہے) کو بٹھا کر پیسوں کا توڑا لے کر بھاگ نکلا۔ انور نے پیسوں والا توڑا اٹھا رکھا تھا، جبکہ اچھو موٹر سائیکل بھگا رہا تھا۔ انور کو عقب سے پولیس کی گولی کمر میں جا لگی۔ اس صورتحال میں اچھو نے انور کو ایک جگہ اتار کر پیسوں کا توڑا موٹر سائیکل کی ٹینکی پر رکھا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ پولیس اس کے پیچھے تھی۔ جی ٹی روڈ پر اس وقت پرانا راوی پل تھا۔ پل کے اوپر پہنچ کر اچھو ٹھہر گیا۔ پولیس اس کے قریب پہنچ چکی تھی کہ اچھو نے پرانا راوی پل سے نوٹوں کے توڑے سمیت دریائے راوی میں چھلانگ لگا دی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More