لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکی-جسٹس(ر)جاوید اقبال

0

اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک ) لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ارکان پارلیمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارکانِ اسمبلی کا کام سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان میں جانا نہیں بلکہ ان کا کام ہے کہ وہ غریب آدمی کے حقوق کے لیے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں، پارلیمنٹ نے آج تک لاپتا افراد کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی۔سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں صوبہ سندھ میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کا جائزہ لیا گیا۔لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے لاپتا افراد کے 5 ہزار سے زائد کیسز میں سے 3 ہزار 8 سو کیسز نمٹائے اور اس وقت ایک ہزار 8 سو 28 کیسز زیر التوا ہیں۔انہوں نےدعویٰ کیا کہ لاپتا افراد کے معاملے کو سیاسی رنگ دیا گیا ۔صرف ماما قدیر نے کہا تھا کہ 40 ہزار افراد لاپتا ہیں، آج تک ان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی صورتحال اتنی گمبھیر نہیں جتنی ظاہر کی گئی، کوئی بھی ادارہ ہو کوتاہیوں سے پاک نہیں ہوتا۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انکشاف کیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے 15 سال میں کسی حکومت نے کوئی کوشش نہیں کی، اگر جسٹس منصور کمال کمیشن کی رپورٹ پڑھ لی جاتی تو لاپتا افراد کا مسئلہ حل ہو جاتا۔انہوں نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کے صرف ایک سو 31 کیسز زیر التوا ہیں اور بلوچستان میں کئی قبائل لوگوں کو غائب کرنے میں ملوث ہیں جبکہ ذاتی چپقلش کی بنیاد پر بلوچستان میں لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی فہرست میں سے 8 افراد کی تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ پارہ چنار میں کاروبار کر رہے ہیں۔لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ براہمداغ بگٹی، ہربیار مری اور خیر بخش مری جب ملک چھوڑ کر گئے تو سیکڑوں افراد ان کے ساتھ گئے تھے جبکہ ان کے نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ہم تو آج تک یہ نہیں معلوم کر سکے کہ ہمسایہ ملک میں ہمارے کتنے شہری قید ہیں، افغانستان کے صوبوں ننگر ہار اور پکتیا میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے متعدد لاپتا افراد قید ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایک ہاتھ میں کشکول ہو، ملک کمزور ہو تو ہمسایے بھی مداخلت کرتے ہیں، ہم ہمسایوں سے نہیں پوچھ سکے کہ ننگرہار اور پکتیا کی جیلوں میں کتنے پاکستانی قید ہیں، ‘ہم نے معلوم کیا تو پتا چلا کہ ان جیلوں پر افغان حکومت کا بھی کنٹرول نہیں’۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ جو لوگ جنیوا میں رہ رہے ہیں ان کے نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست سے نہیں نکالے گئے، یہاں تک کہ صوفی محمد، منگل باغ اور مولانا فضل اللہ کے ساتھ جانے والے لوگوں کے نام بھی لاپتا افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ سندھ سے لاپتا افراد کے ایک ہزار 3 سو 57 کیسز تھے جس میں سے ایک ہزار ایک سو 74 کیسز نمٹا دیے ہیں اور ایک سو 83 کیسز التوا کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے کیسز میں لاپتا ہونے والے اکثر افراد کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جسٹس غوث محمد، سندھ میں کمیشن کے ممبر ہیں اور وہ وہاں کیسز کو سن رہے ہیں۔اس موقع پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو معلومات تک رسائی نہیں ملتی، جس پر جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ میں بتاؤں گا کہ کس ادارے کا کیا کردار ہے، میں کسی سے خائف نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ لاپتا افراد کمیشن کی حتمی رپورٹ جلد پیش کریں گے۔جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ میں یہاں آیا تو مجھے ڈر تھا کہ بات قومی احتساب بیورو (نیب) تک نہ چلی جائے گی، ‘نیب کو کام کرنے دیں کسی سے زیادتی نہیں کریں گے’۔علاوہ ازیں جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ بیرون ملک بجلی بنانے والی کمپنیوں کو دیے گئے کروڑوں روپے کا ریکارڈ کسی اکاؤنٹنٹ جنرل کے پاس نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں نوجوان لوگ ہیں، اُمید ہے ملک کی بہتری کے لیے محنت کریں گے، جس پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال، آپ نے پاکستان کی بہت خدمت کی ہے۔سینیٹ کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو کمیٹی کے اجلاس کے دوران بھوک ستانے لگی۔انہوں نے کمیٹی اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ اجلاس میں بلائیں تو پہلے آگاہ کریں، میں اپنے ساتھ ٹفن لے کر آؤں گا، سادگی کا زمانہ ہے، اپنے کھانے کا بندوبست خود کرنا پڑے گا۔کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں کان کنی کے دوران حادثات میں اضافے اور حکومتی عدم توجہی پر نوٹس بھی لیا گیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More