اسلام آباد (نمائندہ امت)سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں سابق آصف علی زرداری کی جانب سے جمع کرایا جانے والا بیان حلفی مشکوک قرار دیدیا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے آصف علی زرداری کو اپنے ، اہلیہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو مرحومہ ، بیٹے بلاول ،بیٹیوں بختاور اور آصفہ جبکہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور اہلیہ صہبا مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم سے 10برس کے اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔سابق فوجی صدر کو سپریم کورٹ میں پیش ہو کر وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ سپریم چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی کچھ چھپانے نہیں دیں گے۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو این آر او کیس کی سماعت کی ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے سابق صدر و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا یہ بیان مشکوک قرار دیدیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی بیرون ملک میں کوئی جائیداد نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ لفظ آج تک لکھنے سے بیان حلفی مشکوک ہو جاتا ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ زرداری کے بیان حلفی سے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل فاروق نائیک کو ہدایت کی وہ آصف زرداری سے پوچھ کر یہ بھی بتائیں کہ کیا ان کا کوئی سوئس اکاؤنٹ بھی ہے۔خاص طور پر 2007 کے بعد سے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی جائیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا دنیا میں جائیداد چھپانے کے بہت سے طریقے آ گئے ہیں۔سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کےاس موقف پر کہ اُن کے موکل آصف زرداری مختلف مقدمات میں9سال تک جیلوں میں رہے۔ زرداری کے خلاف درج مقدمات میں 40 گواہان پیش ہوئے اور کسی ایک گواہ نے بھی آصف زرداری کے خلاف بیان نہیں دیا۔ سابق صدر کے خلاف درج کئے گئے تمام مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہے، وہ ان تمام مقدمات میں بری ہو چکے ہیں۔ اس پر بنچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی آصف زرداری کے خلاف درج تمام مقدمات منطقی انجام تک نہیں پہنچے ہیں بلکہ احتساب عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں اعلیٰ عدلیہ میں زیر التوا ہیں۔سابق صدر کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اُنہیں نیا بیان حلقی جمع کرانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن عدالت نے آصف زرداری کو دہری مصیبت میں ڈال دیا۔ اس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے قرار دیا کہ عدالت آصف زرداری کے بیان حلفی کی تحقیقات کیلئے نہیں کہہ رہی۔عدالت یہ چاہتی ہے کہ آصف زرداری گزشتہ10برس کے ذرائع آمدنی و جائیداد کی تفصیلات بتائیں۔فاروق نائیک نے کہا کہ اس طرح تو کسی سے سرٹیفکیٹ نہیں لیا جاتا ہے ۔9 سال قید کا کچھ صلہ تو ملنا چاہیے۔چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آصف علی زرداری عام آدمی نہیں قومی لیڈر ہیں۔ہمیں اثاثوں کی تفصیلات بتا دیں، ہم دوبارہ مقدمہ چلانے کے بجائے چاہتے ہیں کہ آصف زرداری کو شفافیت کا سرٹیفیکیٹ دیں۔ آصف علی زرداری اگر الزامات سے بری ہو گئے تو اُنہیں کلین چٹ مل جائے گی جس کا اُنہیں مستقبل میں سیاسی فائدہ بھی ہوگا۔سپریم کورٹ سے کلئیرنس ملنے پر ہی آصف زرداری کو صلہ مل سکتا ہے۔قومی سطح کے رہنماؤں کے اثاثے ظاہر ہونے چاہیں ۔ کیا 9 سال جیل میں رہ کر اثاثے ظاہر نہیں کیے جا سکتے ہیں ؟۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری کی غلطی ہے کہ وہ سیاست دان ہیں۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ لیڈروں کو خود پر لگے داغ دور کرنے چاہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آصف زرداری کاسوئٹزرلینڈ میں کوئی بینک اکاؤنٹ تھا؟۔بے نظیر بھٹو شہید یا بچوں کے نام پر کوئی اکاؤنٹ ہے ۔اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ سوال کا جواب آصف زرداری سے معلوم کر کے دیں گے۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آصف علی زرداری 2007 کے بعد سے اب تک اپنے ملکی و غیر ملکی اثاثوں کی تفصیلات دیں اگروہ کسی ٹرسٹ کے مالک یا بینفشل اونر ہیں، بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی اکاؤنٹ کے مالک یا شراکت دار ہیں تو عدالت کو آگاہ کریں۔سماعت کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی جانب سے ان کے وکیل اختر شاہ نے غیر مصدقہ بیان حلفی جمع کرایا۔ بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ پرویزمشرف دبئی ٹاور سکس میں ایک اپارٹمنٹ اور بیرون ملک 54 لاکھ درہم کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ان کے پاس بیرون ملک3گاڑیاں ہیں جبکہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ میں 92 ہزار 100 درہم ہیں ۔اس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابق فوجی صدر کی تمام تنخواہیں جمع کئے جانے سے بھی 54لاکھ درہم کی رقم نہیں بنتی۔ پرویز مشرف ساری زندگی کی تنخواہ سے اتنا مہنگا فلیٹ نہ لے سکتے تھے۔پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے پیسے پاکستان نہیں کمائے بلکہ صدارت کا منصب چھوڑنے کے بعد بیرونی ممالک میں دیے جانے والے لیکچرز سے کمائے ہیں۔ ہم عدالت سےکچھ نہیں چھپائیں گے ۔چیف جسٹس نے قرار دیا کہ عدالت آپ کو کچھ چھپانے بھی نہیں دے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے مشرف کو سعودیہ سے تحائف بھی ملے ہیں ۔سابق فوجی صدر کو کہا جائے وہ پیش ہو کر خود وضاحت دیں۔ اگر میں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد لیکچر دینا شروع کروں تو کیا مجھے بھی اتنے پیسے ملیں گے؟۔عدالت نےسابق اٹارنی جنرل ملک قیوم سےبھی اپنے 10سال کے اثاثوں و بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے3 ہفتے میں بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔