کراچی ( رپورٹ :عمران خان ) کے پی ٹی پورٹ گرینڈ کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے نے کے پی ٹی افسران کے گرد گھیرا تنگ کردیا ،پورٹ گرینڈ سمیت کے پی ٹی میں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات پر ایف آئی اے میں دو مزید انکوائریاں شروع کی گئی ہیں جن کے بعد کے پی ٹی حکام کے خلاف انکوائریوں کی تعداد تین ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے سابق وزیر بابر غوری سمیت دیگر کے پی ٹی حکام کی جانب سے اربوں روپے کی زمین کوڑیوں کے بھائو پورٹ گرینڈ کے لئے جی ایل سی کمپنی کو دینے کی تحقیقات میں حتمی نوٹس ارسال کرنا شروع کردئے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ”کے پی ٹی پورٹ گرینڈ “ کے حوالے سے جاری انکوائری میں 28اگست کے روز ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کے تفتیشی افسر کی جانب سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے منیجر اسٹیٹ مظہر جتوئی کو جاری کردہ نوٹس میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اس سے قبل 28اگست کو طلب کیا گیا تھا تاکہ ا ن سے تحقیقات میں بیان قلمبند کیا جاسکے تاہم وہ حاضر نہیں ہوئے تاہم اب انہیں 30اگست کے روز دوپہر 11بجے دوبارہ بلایا گیا ہے اور اگر اس بار بھی وہ انکوائری آفیسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو ان کے خلاف پاکستا ن پینل کوڈ کی دفعہ 174کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔’’امت‘‘ کو موصول دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل اور ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں مجموعی طور پر تین انکوائریاں کی جا رہی ہیں جن میں فوڈ اسٹریٹ پورٹ گرینڈ کرپشن کیس ،جعلی اور غیرقانونی بھرتیوں کے حوالے سے تحقیقات شامل ہیں جن میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچائے جانے کے الزامات ہیں ،ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ان تحقیقات میں ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ پورٹ گرینڈ کی اراضی کی لیز اور تعمیرات کے وقت ہونے والے معاملات میں کے پی ٹی کے متعلقہ حکام کی جانب سے قواعد اور ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں اس کے لئے نہ تو اشتہارات دئے گئے اور نہ ہی دیگر کمپنیوں سے بولیاں حاصل کی گئیں ،ذرائع کے مطابق پورٹ گرینڈ پر کام کرنے والی کمپنی کی جانب سے نہ تو 10سالہ کرائے کی مد میں 300ملین دئے گئے اور نہ ہی 2014میں پہلی دہائی ختم ہونے کے بعد اگلی دہائی کا کرایہ ادا کیا گیا تاہم آگے کرائے پر جگہ حاصل کرنے والی کمپنیوں سے کرایہ وصول کیا جاتا رہا ،امت کو ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کے پی ٹی اور جی ایل سی کے درمیان ہونے والے معاہدے میں واضح طور پر ادائیگیوں کی شرح اور زمین کے استعمال کی شرائط طے کرکے درج کی گئی تھیں جن کی عدم پاسداری کی صورت میں کے پی ٹی انتظامیہ کو اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی وقت کارروائی کرسکے تاہم 75کروڑ کا خسارہ برداشت کرنے کے باجود کے پی ٹی حکام نے کمپنی کے خلاف کارروائی نہیں کی اور نہ ہی عدالت سے رجوع کیا بلکہ خاموشی اختیار کرلی گئی،جبکہ حالیہ عرصے میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے منیجر اسٹیٹ کے طور پر کام کرنے والے مظہر جتوئی بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں کیونکہ بہت سے افسران کے مالی مفادات متاثر ہوسکتے ہیں ،ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس سے قبل کے پی ٹی سے پورٹ گرینڈ کے لئے زمین حاصل کرنے والی کمپنی جی ایل سی کے حکام کو بھی ریکارڈ اور معاہدے کی کاپی کے ساتھ طلب کیا گیا تھا جنہوں نے گزشتہ ہفتے ایف آئی اے میں اپنے بیانات ریکارڈ کروادئے ہیں تاہم کے پی ٹی حکام کی جانب سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر گریز کیا جا رہا ہے ۔