میرپور خاص (رپورٹ: راشد سلیم) تھر میں غذائی قلت کا عفریت رواں ماہ 46 بچے نگل گیا۔ جبکہ رواں سال 418 معصوم بچے لقمہ اجل بن چکے اس کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، صحرائے تھر میں ہونے والی غذائی قلت اور تھری باشندوں میں مختلف قسم کی پھیلنے والی بیماریوں نے سنگین صورتحال اختیار کرلی ہے۔ ضلع کی کل آبادی 16 لاکھ ہے۔ جس کے علاج معالجے کیلئے 289 ڈسپنسریاں قائم ہیں جن میں سے 90 ڈسپنسریوں کی حکومت سے ایس این ای منظور نہیں، 30 کا بجٹ آتا ہے جوکہ تمام ڈسپنسریوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، مٹھی سول اسپتال کا بجٹ سالانہ ڈیڑ ھ کروڑ روپے ہے اس کے علاوہ ضلع تھرپار کر میں چار تعلقہ اسپتال ڈیپلو،ننگر پارکر چھاچھرو،اور اسلام کوٹ میں موجود ہیں ضلع بھر میں کل ڈاکٹروں کی تعداد 150 جبکہ لوئر اسٹاف کی تعداد 512ہے جوکہ انتہائی کم ہے ضلع تھرپارکر میں قحط سالی کے علاوہ شدید غذائی قلت کے شکار ہونے والے مریضوں خاص طور پر معصوم بچوں کو علاج معالجے کی سہولت موجود نہیں، بچوں کی اموات کا ریکارڈ صرف مٹھی سول اسپتال ہی سے لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تھرپارکر کے دوہزار سے زائد گوٹھ ایسے بھی ہیں جہاں پر فوت ہونے والے بچوں کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ اس طرح غذائی قلت کا شکار مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ معلوم ہوا ہے کہ تھر میں بڑے پیمانے پر سرکاری اسپتال غیر فعال ہیں اور ڈاکٹرز اور دیگر عملہ اس صورتحال کے باوجود بھی گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے حکومت سندھ سے تحریری طور پر تھر پارکر کی 172 دیہہ میں سے 167دیہہ کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش کی گئی اور ان دیہہ کی ایک بڑی تعداد میں رہائش پذیر غریب لوگوں کو نہ علاج معالجہ کی سہولیات موجود ہیں اور نہ سرکاری امداد ملتی ہے جس سے یہاں کے لوگ دائیوں، اتائیوں اور حکیموں سے علاج کرانے پر مجبور ہیں اور نتیجے میں غذائی قلت سے تھر پارکر میں 400سے 500 گرام تک وزن کے بچوںکی پیدائش ہو رہی ہے۔ جن کو بچانا ممکن نہیں، اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر ضلع تھرپارکر عبدالقادر جونیجو نے کہا کہ ہم نے حکومت سندھ سے تھر کی 172میں سے167دیہات کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش کی ہے ضلع میں ماہر ڈاکٹروں کی قلت ہے تاہم سرکاری اسپتالوں کی صورتحال تسلی بخش ہے ہم روزانہ کی بنیاد پر اسپتالوں کا معائنہ کر رہے ہیں، حکومت کی جانب سے اسپتالوں میں وافر مقدار میں ادویات موجود ہیں اور مریضوں کو تمام طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جبکہ ضلع بھر میں 700 آر او پلانٹ ہیں جن سے صرف 60 چل رہے ہیں جبکہ 237 ابھی تیاری کے مراحل میں ہیں پروجیکٹ کے پی ڈی نے ہمیں یقین دلایا کہ جن پلانٹ کا کام جاری ہے انہیں ایک ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا جبکہ جو خراب آر او پلانٹ ہیں ان کی مرمت کرا کے انہیں بھی فعال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی اموات سے متعلق ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ دیتے ہیں اس ماہ 45بچے فوت ہوئے ہیں ماں کو غذا کی کمی سے زیادہ تر بچوں کی پیدائش کا وزن آدھا کلو ہوتا ہے جو کسی بھی صورت بچنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ حکومت سندھ کی جانب سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت تھر کے 87 ہزار خاندانوں میں 50 کلو امدادی گندم تقسیم کی جائے گی اور پہلے مرحلے میں تھر کے 27 ہزار خاندانوں میں گندم کی تقسیم ہو گی جس کے سروے کے لئے ڈپٹی کمشنر سطح پر ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں مختیار کار تپہ دار ، اسکول کا ہیڈ ماسٹر ، یوسی چیئرمین ، مقامی ایک شخص پر مشتمل ہوگی جو خاندانوں اور انکے مال مویشیوں کا سروے کریگی جس کے بعد ان کی نگرانی میں گندم اور جانوروں کیلئے چارہ دیا جائے گا جبکہ مٹھی اسپتال میں بچوں کی بیماریوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر موہن لال نے بتایا کہ مٹھی ہسپتال میں ضلع کے دور دراز کے علاقوں سے ایسے کمزور بچے آخری وقت میں لائے جاتے ہیں جوکہ وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور انکا وزن 400 سے 500 گرام ہوتا ہے اگر ایسے بچوں کو آغا خان اسپتال میں بھی لے جایا جائے تو وہ انہیں داخل نہیں کریں گے ضلع بھر میں 70فیصد ڈیلیوریاں باہر ہوتی ہیں اور 30فیصد ڈلیوریاں دائیوں سے کرائی جاتی ہیں جو پیدائش کے وقت انتہائی بے دردی کے ساتھ بچوں کو کھینچتی ہیں جس سے بچوں کی ہڈیوں میں فریکچر پڑ جاتے ہیں اورہمارے پاس ایسے بچے بھی لائے جاتے ہیں جوکہ دائیوں کے کھینچنے سے انکے بازو ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ فوت ہوجاتے ہیں واضح رہے کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد بھی تھر پار کر ضلع کے سرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر نہیں ہو سکی ہے حکومت کی جانب سے تھرپارکر ضلع کے علاوہ سندھ کے سانگھڑ ، خیرپور کی دیہوں کو بھی آفت زدہ قرار دینے اور یہاں کے قحط متاثرین میں امدادی گندم تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے لیکن زیادہ تر امدادی گندم سیاسی رشوت اور پسندنا پسند کی نظر ہو جاتی ہے تھر میں حکومت کی جانب سے غذائی قلت اور تھری باشندوں میں پھیلی مختلف بیماریوں سے نمٹنے کے لئے ہنگامی بنیاد پر کام نہ ہونے کی وجہ سے تھر کے غریب لوگوں میں غذائی قلت کے شکار مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور عمر کوٹ ، بدین سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں غذائی قلت اور مختلف بیماریوں کے شکار بچوں کو لایا جارہا ہے تھرپارکر ضلع کا تعلقہ مٹھی سماجی تنظیموں کے ساتھ ساتھ حکومتی سرگرمیوں کا مرکزرہتا ہے اور ان امدادی سرگرمیوں سے صر ف مٹھی شہر اور ارد گرد کے لوگ ہی استفادہ کرتے ہیں جبکہ دور دراز کے علاقوں کے لوگ محروم رہتے ہیں تھر میں تھری باشندوں کی فلاح و بہبود کے کام کرنے کے بلند وبانگ دعوے کرنے والی اور ان کے نام پر غیر ملکیوں سے بھاری فنڈز حاصل کرنے والی این جی اوز نے بھی تھر کے غریب عوام کی حالت زار پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس سال قدرتی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے تھر کی صورتحال مزید خراب ہو چکی ہے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے لئے غذاکی بھی کمی ہو رہی ہے اگر فوری طور پر حکومت نے پورے تھر میں امدادی سرگرمیاں شروع نہیں کیں تو تھر کے حالات مزید خراب ہو ں گے۔