نجم الحسن عارف
آئندہ چند ہفتوں میں وفاقی کابینہ میں اضافے کا امکان ہے۔ حکومتی جماعت نے ناراض پارٹی ارکان کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے اقصادی رابطہ کمیٹی کی تکمیل کا جواز گڑھ دیا۔ سادگی اور کفایت شکاری کے تمام تر دعوؤں کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کو وفاقی کابینہ میں توسیع کا اصولی فیصلہ کرنا پڑ گیا۔ وفاقی کابینہ میں پارٹی کے ناراض دھڑوں اور ارکان کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وفاقی کابینہ میں صرف چند ہفتوں کے اندر توسیع کا سبب کابینہ کی اقصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو مکمل کرنا بتایا جائے گا۔ اسی لئے اس ’’اصولی فیصلے‘‘ کا پہلا اظہار اسی روز سامنے آیا، جب اقتصادی رابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا تھا۔ ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں کام کرنے والی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں ابھی 6 مزید وزارتوں کے سربراہان کو شامل کرنا ہے۔ لیکن پہلے یہ چھ ارکان کابینہ میں شامل کئے جائیں گے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ میں توسیع کے بعد صوبائی کابیناؤں میں بھی توسیع کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ میں توسیع کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو بھی خاموش کرایا جاسکے گا۔
واضح رہے کابینہ میں ایک اضافہ وزیر مملکت برائے داخلہ امور کی صورت میں شہر یار خان آفریدی کا کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کابینہ کے ارکان کی تعداد 16 اور مشیران وزیراعظم کی تعداد پانچ مقرر کی گئی تھی۔ وزیر مملکت برائے داخلہ امور کا اضافہ کابینہ بنانے کے محض ایک ہفتے کے بعد کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان ان دنوں پارٹی کے اندر موجود مختلف دھڑوں کے باعث سخت دباؤ میں ہیں۔ کیونکہ انہیں الیکشن سے قبل بہت تھوڑے عرصے میں نئے دھڑوں اور شخصیات کو پارٹی میں قبول کرنا پڑا۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان کو جو مشکل الیکشن سے پہلے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے درپیش تھی۔ اب وزیر اعظم بننے کے بعد اس سے بھی زیادہ مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ پارٹی کی اتنخابی جیت کے ساتھ ہی سب سے پہلے صوبہ پنجاب میں پارٹی کے اہم ترین رہنماؤں کے درمیان وزارت علیا کیلئے اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ ادھر صوبہ خیبر پختون میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنی وزارت علیا دوبارہ پکی کرنے کیلئے باقاعدہ گروپنگ شروع کر دی ہے۔ اب پارٹی کے اندر موجود مختلف دھڑوں کو کابیناؤں میں نمائندگی دینا لازم ٹھرا ہے۔ جیسے ہی وفاقی و صوبائی کابیناؤں میں توسیع کا معاملہ سامنے آیا ہے تو وزارت حاصل نہ کر پانے والے ارکان اسمبلی اور پارٹی رہنما فعال ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عامر لیاقت حسین کی شہرت ایسی نہیں کہ وفاقی حکومت میں ان کیلئے جگہ بن سکے۔ لیکن جن بنیادوں پر حالیہ دنوں میں ٹکٹوں اور وزارتوں کے فیصلے کئے گئے ہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ کم از کم یہ ضروری ہے کہ عامر لیاقت حسین نے پارٹی کی حکومت کے ٹیک آف کرتے ہی ہنگامے کا ماحول ضرور پیدا کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں پارٹی قیادت کی پریشانی فطری ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ تو مشکل ہے کہ صدارتی انتخاب سے پہلے ہی نئے وزرا کا اضافہ کرلیا جائے۔ لیکن یہ ضرور ہوگا کہ کئی ارکان اور دھڑوں کو صدارتی انتخاب سے پہلے اس سلسلے میں اعتماد میں لیا جائے گا۔ جبکہ صدارتی انتخاب کے بعد اگلے مرحلے میں مزید افراد کو کابینہ میں ’’اکاموڈیٹ‘‘ کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ایک مخلوط حکومت بنانے پر مجبور عمران خان کو شروع میں اندازہ نہیں تھا کہ کئی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو تو کابینہ کا سائز چھوٹا رکھنا مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب اپنی پارٹی کے اندر بھی کئی دھڑے پائے جاتے ہوں۔ اب امکان ہے صدارتی انتخاب کے بعد کابینہ میں توسیع ممکن بنائے جائے گی، تاکہ مزید کئی ارکان کی ناراضگی دور کی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کیلئے کابینہ اور حکومت سازی میں اس لئے بھی شروع سے ہی مشکلات پیدا ہوئی ہیں کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنما مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرنے کے بجائے خود مسائل پیدا کرنے والوں میں شامل تھے۔ اور کوئی ایک اہم رہنما بھی دوسرے اہم رہنما کے ساتھ متفق نظر نہیں آرہا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق اب بھی پارٹی کے اندرونی دھڑے ہی پارٹی قیادت کیلئے دباؤ کا ماحول پیدا کئے ہوئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ وزرا کی نئی امکانی کھیپ میں وزرائے مملکت بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے آڑ یہی لی جائے گی کہ یہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تکمیل کیلئے ضروری تھا۔ خیال رہے دو روز قبل وزیر خزانہ اسد عمر کے زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں کابینہ میں کئی اہم ’’پولٹ فولیوز‘‘ موجود نہ ہونے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا گیا ہے۔ ان وزارت میں مواصلات، وزارت پانی و بجلی، خود سیکورٹی، نجکاری اور شماریات کی وزارتیں زیادہ اہم ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں پارٹی کے پرانے لوگوں کی عدم موجودگی سے بھی پارٹی کے اندر سخت تشویش پائی جاتی ہے اس لئے امکان ہے کابینہ میں اضافہ ہونے کی صورت میں پارٹی کے پرانے ارکان کی کابینہ میں نمائندگی بھی بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ایسی صورت میں وفاقی کابینہ میں مجموعی طور پر ممکنہ اضافہ چھ سے آٹھ وزرا کا ہوسکتا ہے۔ اسی صورت میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے قائم کی گئی 12 رکنی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ارکان کی تعداد پوری ہوسکے گی وار اسی کے نتیجے میں پارٹی کے بعض ناراض لوگوں کو رام کیا جاسکے گا۔ ٭