لاہور سیشن کورٹ میں پہلا قتل اچھوباڑلا نے کیا

0

ابو واسع
اچھو اور چھیدی کی مفروری کا عرصہ لگ بھگ دس برس پر محیط ہے۔ لڑکپن سے جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے والے دونوں بھائی اب عین جوانی میں قدم رکھ چکے تھے اور انہیں احساس ہو رہا تھا کہ ان کی جرائم زدہ زندگی کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ دنیا کی رنگینی انہیں اب اپنی جانب کھینچنے لگی تھی۔ اچھو چونکہ بڑا اور سمجھدار تھا اور ہمیشہ باڑلا گروپ کی پشت پر رہ کر کام کرتا، اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ اب جو قتل اور اقدام قتل کے مقدمات ان پر درج کیے گئے ہیں، ان سے آہستہ آہستہ چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ لیکن ان کے باپ کا قاتل یونس پچر ابھی تک زندہ تھا، چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ یونس پچر جس دن ان کے ہاتھوں سے قتل ہو جائے گا وہ ایک ایک کر کے پولیس کے سامنے سرنڈر کر دیں گے۔ پہلے ایک بھائی سرنڈر کرے گا۔ وہ مقدمات سے بری ہوجائے گا تو پھر دوسرا بھائی پیش ہوگا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک بھائی باہر رہے، تاکہ دشمن پر ان کا خوف طاری رہے اور وہ مقدمات کی پیروی نہ کریں۔
یونس پچر اگرچہ جیل سے رہا ہوگیا تھا، لیکن وہ شاہدرہ مقدمات کی پیشی پر جایا کرتا تھا۔ اچھو اس تاک میں تھا کہ کسی طرح پیشی کے موقع پر اسے ہلاک کرکے اپنے سینے کی آگ ٹھنڈی کرے۔ چنانچہ اس نے یونس پچر کو سیشن کورٹ میں جاکر قتل کر دیا اور یہ لاہور کی تاریخ میں سیشن کورٹ میں پہلا قتل تصور ہوتا ہے۔ یونس پچر چار پانچ برس جیل کاٹ کر آیا تھا اور جس وقت وہ جیل گیا تھا، اس کے بعد سے اچھو اور چھیدی نے اس کی شکل درست طور پر نہیں دیکھی ہوئی تھی۔ چنانچہ پہلے چھیدی اور بالا گاڈی گینگ کے ہمراہ دو مرتبہ سیشن کورٹ کچہری گئے، تاکہ یونس پچر کو ٹھکانے لگا سکیں۔ لیکن وہاں پولیس اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر دو مرتبہ ناکام واپس آئے۔ انہیں جرأت نہ ہوسکی کہ یونس پچر کو مار دیں۔ جب اچھو کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے انہیں بہت لعن طعن کی اور گالیاں نکالیں کہ تم لوگ بزدل ہو، ڈر گئے ہو۔ چنانچہ اچھو نے طے کیا کہ وہ خود یونس پچر کو ٹھکانے لگائے گا۔ اچھو چونکہ بہت کم لوگوں کے سامنے آتا تھا، اس لیے ابھی تک اچھو کی جتنی تصاویر سامنے آئی ہیں وہ زیادہ تر جیل میں کھینچی گئی ہیں۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ جب اچھو جیل میں تھا تو وہ جیل سے بھی پیغام بھجوا کر بھتہ لیتا تھا، جس کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی تھیں۔ اس کا گینگ باہر اس قدر مضبوطی سے کام کرتا کہ کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ اس کے پیغام پر انکار کرے۔ بہرحال جب چھیدی اور بالا گاڈی ناکام واپس آئے تو اچھو باڑلا خود پلاننگ کرنے لگا کہ یونس کو کیسے ٹھکانا لگایا جائے۔ صفدر ڈیال اس وقت ایم پی اے تھا۔ اچھو نے کہیں آنا جانا ہوتا تو اسی کی گاڑی میں سفر کیا کرتا۔ کیونکہ اس کی گاڑی پر ایم پی اے کی نمبر پلیٹ لگی ہوتی تھی اور اسے پولیس نہیں روکتی تھی۔ جس روز یونس پچر کی سیشن کورٹ میں تاریخ تھی، اچھو صفدر ڈیال کی گاڑی لے آیا۔ اس وقت گینگ میں سے اس نے صرف بالا گاڈی کو ساتھ لیا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یونس پچر کو اچھو پہچان نہیں سکتا تھا، چنانچہ اس نے گائوں سے ایک شخص بابا انورکو ساتھ لیا۔ یہ شخص ابھی تک زندہ ہے اور اب اسے مولوی انور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ صفدر ڈیال کی گاڑی کو پولیس کہاں روکتی، چنانچہ اچھو نے گاڑی میں ہی بابا انور سے یونس پچر کی نشان دہی کرالی کہ جس نے شخص نے تازہ شیو کی ہوئی اور مونچھوں کو تائو دیا ہوا ہے، وہی یونس پچر ہے۔ جیسے ہی یونس پچر گاڑی کے سامنے سے گزرنے لگا، اچھو نے کلاشنکوف کا پورا برسٹ ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں اس پر خالی کردیا۔ کچھ گولیاں اسے لگ گئیں اور کچھ مس ہوگئیں۔ لیکن جوگولیاں لگیں، انہوں نے اس کا کام تمام کر دیا۔ کارروائی کرنے کے فوری بعد اچھو اور بالا گاڈی صفدر کی گاڑی میں بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ لوگ جب تک سنبھلتے تینوں سیشن کورٹ کے احاطے سے گاڑی نکال کرلے گئے۔
یونس پچر کو مارنے کے بعد اچھو کے سینے میں لگی آگ ٹھنڈی پڑ گئی اور اب اس نے زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اس کے باپ کے قاتل ایک ایک کرکے ختم ہو چکے تھے۔ دوسری جانب شیخ روحیل اور اخلاق گڈو کی دشمنی عروج پر تھی۔ شیخ روحیل اصغر کا باپ اور بھائی اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا، جبکہ اچھو اور چھیدی اب شیخ کی ایما پر اس کا بدلہ لینے کے لیے سرگرم تھے۔ ماجھا سکھ جو اخلاق گڈو کا باپ تھا، وکیل تھا۔ چونکہ یہ قبضہ گروپ کے کیس وغیرہ لیتا تھا، اس لیے اس کے تعلقات ان لوگوںکے ساتھ ہو گئے تھے۔ چنانچہ ان کے ساتھ مل کر یہ بھی لوگوں پر ظلم کرتا، جس کی وجہ سے میاں معراج دین کا نام ماجھا سکھ پڑ گیا تھا۔ شیخ اصغر نیا نیا لاہور میں کاروبار شروع کر چکا تھا، چنانچہ قبضہ اور بھتہ کے حوالے سے ان کے ساتھ ماجھا سکھ کی دشمنی شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں شیخ اصغر اور اس کا بیٹا قتل ہوگئے، جبکہ شیخ روحیل اصغر جیل چلا گیا۔ جیل سے ہی اس نے ایم پی اے کا الیکشن لڑا تھا۔ ماجھا سکھ کے قتل کے بعد گڈو اور اس کے چچا نے دشمنی آگے بڑھائی۔ ماجھا سکھ کے بھائی کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا،جسے اچھو، چھیدی اور تائو گاڈی نے بھرے بازار میں قتل کر دیا تھا۔ یہ اس قدر بہمیانہ قتل تھا کہ ماجھا سکھ کا خاندان ہل گیا۔ ماجھا سکھ کے بھائی کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، لیکن اس کا اکلوتا بیٹا اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ چنانچہ اس نے اخلاق گڈو جو اس کا بھتیجا تھا، اس کے لیے پیسوں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے تھے اور کہا تھا کہ جتنا پیسہ چاہے خرچ کرو، لیکن اچھو اور چھیدی باڑلا کو کسی طرح ٹھکانے لگوا دو۔ اچھو اور چھیدی نے اس کے بیٹے کے ساتھ ساتھ دو اور لوگ بھی ماجھا سکھ گروپ کے قتل کئے تھے۔ اس لیے اب ضروری تھا کہ ان کا بندوبست کیا جاتا۔ اسی دوران الیکشن بھی سر پر آگیا۔ اچھو اور چھیدی چھلاوے کی طرح غائب ہوگئے۔ ایک طرف اخلاق گڈوکے لوگ جدید اسلحہ لے کر دونوں کو ڈھونڈرہے تھے تو دوسری جانب صفدر ڈیال ایم پی اے کا الیکشن لڑ رہا تھا۔ اس کا مقابلہ بٹ نامی امیدوار سے تھا۔ صفدر ڈیال نے اچھو اور چھیدی سے کہا کہ الیکشن ہر حالت میں جیتنا ہے۔ چنانچہ اچھو اور چھیدی نے بٹ کو پیغام بھجوایا کہ الیکشن کے دن تم نے بی آر بی نہر کے پار نہیں آنا، ورنہ تمہاری زندگی کی کوئی ضمانت نہیںہوگی۔ چنانچہ اس روز بٹ پورا دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا اور باڑلا گروپ نے دھڑا دھڑ صفدر ڈیال کو ووٹ ڈلوا کر جتوا دیا تھا۔ جب صفدر کی جیت کا اعلان ہوا تو باڑلا گروپ بٹ کے ڈیرے پر جا پہنچا اور وہاں جاکر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے بٹ کے گھر پر بھی فائر کردیئے۔ چنانچہ ایک جانب ماجھا گروپ اور دوسری طرف بٹ کے لوگ ان دونوں بھائیوں کے پیچھے تھے۔ گڈو کو چچا سے جو پیسہ مل رہا تھا، وہ اسے پانی کی طرح بہا رہا تھا۔ اس نے پولیس اور دیگر اشتہاریوں کو لاکھوں روپے دیئے کہ کسی طرح اچھو اور چھیدی کو قتل کر دیں۔ لیکن باڑلا گروپ کے یہ دونوں لیڈر اتنے طاقتور تھے کہ کسی کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی۔
ایک جانب یہ دونوں جرائم کی دلدل میں گردن تک پھنسے ہوئے تھے تو دوسری طرف ان کی ماں دونوںکے سر پر سہرا سجانا چاہتی تھی۔ لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ اچھو کے ایک بہنوئی نے یہ بات آن ریکارڈ کہی کہ مجھے ایک روز اچھو نے بتایا تھا کہ اس نے شادی کر رکھی ہے، اور اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔ جبکہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ اپنی تصویر بھی دکھائی، جس میں بیوی کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ جب اس کے بہنوئی نے زیادہ زور لگایا کہ مجھے تفصیل بتائو تو اس نے کہا کہ میں کچھ دنوں تک آپ کو ساری تفصیل بتا دوں گا۔ لیکن اسے پھر تفصیل بتانے کا موقع نہ ملا اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ جبکہ چھیدی نے مختلف عورتوں سے تعلقات رکھے ہوئے تھے۔ چھیدی دراصل نہایت خوبصورت نوجوان تھا۔ جب وہ کیمپ جیل میں تھا تو وہاں ایک معروف قاتل جس نے سیالکوٹ جیل میں دو ججز کو قتل کیا تھا، اس کے نام کے ساتھ ’’برف والا‘‘ آتا تھا، وہ بھی وہیں موجود تھا۔ اس نے چھیدی کو دیکھا تو قہقہہ لگا کر کہا کہ یہ چھیدی ہے۔ یہ تو عورتوں کی طرح خوبصورت ہے۔ یہ کیسے بدمعاش، اشتہاری اور قاتل ہوسکتا ہے۔ چھیدی پتلے اور پھرتیلے جسم کا مالک تھا۔ اس پر گورا چٹا بھی تھا۔ اسی تناظر میں اس نے یہ بات کی تھی۔ اس وقت تو چھیدی خاموش ہوگیا۔ اب اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باڑلا گینگ کس قدر مضبوط تھا کہ اگلے روز چھیدی کو جیل میں اسلحہ پہنچ گیا اور چھیدی برف والے کے سر پر جا پہنچا۔ برف والے نے سر پر بودھی (جوڑا) رکھی ہوئی تھی۔ اچھو نے اسے کہا کہ عورت میں نہیں تم ہو، جو یہ بودھی سر پر رکھے پھرتے ہو۔ چنانچہ اس نے بھری جیل میں اس قاتل کے سر سے یہ بودھی کاٹ ڈالی اور اسے کہا کہ اب تم مرد دکھائی دیتے ہو۔ چھیدی پر جو قتل کے مقدمات تھے، وہ آہستہ آہستہ عدم ثبوتوں کی بنیاد پر ختم ہوتے جارہے تھے، اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ سب مقدمات سے بری ہوگیا۔ صرف کچھ مقدمات باقی رہ گئے، جن پر وہ ضمانت لے کر باہر آگیا۔ لیکن جیل سے باہر آنا اس کے لیے موت کا پیغام بن گیا۔ وہ خوبصورتی اور حسن جو چھیدی کا خاصا تھا وہی اس کے لیے موت کا پھندا ثابت ہوا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More