وجیہ احمدصدیقی
جی ایچ کیو میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ بعض وزرا کو دفاعی معاملات پر بریفنگ دی گئی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور فوجی سربراہ جنرل جوزف کی آمد پر سول و ملٹری قیادت ایک پیج پر نظر آئے۔ دوسری جانب عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق عسکری قیادت کے بعد سول حکومت بھی امریکہ کو نومور کہنے جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ جی ایچ کیو کی بریفنگ میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور متوقع وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے علاوہ سیکریٹری دفاع نے شرکت کی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو کی بریفنگ ہر وزیر اعظم کو دی جاتی ہے۔ لیکن اس بریفنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا دورانیہ آٹھ گھنٹے تھا۔ عمران خان کو یہ بریفنگ اس لیے بھی دینا ضروری ہوگئی تھی کہ امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر جو رابطہ کیا تھا، اس میں پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے مدعو ارکان کو افغانستان، بھارت، لائن آف کنٹرول اور ایران کے حوالے سے انٹیلی جنس معلومات سے آگاہ کیا گیا۔ اس وقت دنیا بھر سے وزرائے خارجہ پاکستان آرہے ہیں اور وہ پاکستانی حکومت کے سیاسی عزائم جاننا چاہتے ہیں۔ اس بریفنگ کا مرکزی نکتہ امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈن فورڈ کی 5 ستمبر کو اسلام آباد آمد ہے۔ ذرائع کے بقول عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے تفصیل کے ساتھ بریفنگ میں سوالا ت کیے اور تمام امور پر تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ وزیراعظم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بریف کیا گیا، تاکہ وہ پومپیو کے بچھائے ہوئے جال میں پہلے کی طرح پھنس نہ جائیں۔
عسکری تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس بریفنگ کا مقصد امریکہ کو کسی نئی مہم جوئی سے روکنا ہے اور بتانا ہے کہ اس حوالے سے سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکی حکام نئی پاکستانی قیادت کیلئے نئی ترغیبات لے کر آرہے ہیں۔ امریکہ اقتصادی امداد کا لالچ بھی دے گا اور ممکن ہے فوجی تربیت کے پروگرام کی بحالی کا وعدہ بھی کرے۔ لیکن توقع یہی ہے کہ عسکری قیادت کے بعد اب سیاسی قیادت کی جانب سے بھی امریکہ کو NO MORE کہا جائے۔ عسکری تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’’وزیر اعظم عمران خان اس سے قبل کسی عوامی عہدے پر نہیں رہے، اس لئے انہیں خارجہ اور دفاعی امور پر بنیادی معلومات بھی نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پورا وقت دیا گیا کہ وہ اس حوالے سے اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کرلیں۔ انہیں صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ بھارت، لائن آف کنٹرول، افغانستان، ایران و سعودیہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے علاوہ ملک میں جاری آپریشن ردالفساد، بلوچستان اور کراچی میں جاری آپریشنز کے بارے میں بتایا گیا۔ بالخصوص افغانستان کے بارے میں۔ کہ یہ امریکہ کی محض الزام تراشی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ پاک افواج نے دہشت گردوں کے تمام محفوظ ٹھکانوں کو ختم کر دیا ہے۔ اس لیے سیاسی قیادت کا ذہن اس حوالے سے بالکل واضح ہوجائے کہ امریکی پروپیگنڈے کی کوئی حقیقت نہیں۔ امریکی پروپیگنڈے کو سچ قرار دے کر پاکستان میں بھی بہت سی سیاسی قوتیں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ جیسے پاکستان میں واقعی دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ ان قوتوں کے پروپیگنڈے کا سدباب بھی اسی طرح ہوگا کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت ایک ہی موقف پر متحد نظر آئیں‘‘۔ ایک سوال پر جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مختلف نوعیت کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ ایسی صورتحال میں اہم قومی اداروں کا ایک سطح پر متحد ہونا ضروری ہے، جس کے لیے مربوط رابطے ضروری ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ سول ملٹری ریلیشنز کی پاکستان میں جس قدر اہمیت ہے، شاید دوسرے ممالک میں اتنی نہ ہو۔ اس لیے کہ پاکستان میں ان تعلقات کے بگاڑ سے اس کے دشمنوں نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اب پاکستان میں نئی حکومت آئی ہے تو ان تعلقات کو آئیڈیل شکل دینے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ اگرچہ عالمی اور پاکستان دشمن قوتوں کی اب بھی یہ کوشش ہوگی کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت ایک پیج پر نہ آئیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے۔ واشنگٹن کا دورہ بھی ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کا اور عسکری قیادت کا ایک ہی موقف ہو۔ امریکی وزیر خارجہ اور امریکی افواج کے سربراہ کی پاکستان آمد کے موقع پر اس کا اظہار ہوگا کہ پاکستان نے اپنے ملک سے دہشت گردی کے تمام ٹھکانوں کا خاتمہ کردیا ہے‘‘۔ آصف ہارون نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ اور امریکی فوج کے سربراہ پاکستان سے اب بھی ڈو مور کا مطالبہ کرنے آرہے ہیں، لیکن اب دونوں ملکوں کے تعلقات ماضی کی بہ نسبت سرد مہری کی انتہائی سطح پر ہیں۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر کئی اقتصادی پابندیاںعائد ہیں۔ فوجی تربیت کاسلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ ماضی میں اس قسم کی پابندیوں پر حکومت پاکستان کی طرف سے کبھی امریکہ کو آنکھیں نہیں دکھائی گئیں۔ پاکستان کی فوجی امداد بند ہونے پر پاک فوج نے ہی امریکہ کو نو مور کہا۔ اب پاکستان کی سیاسی قیادت کی باری ہے کہ وہ امریکہ کو نو مور کہے۔ امریکیوں نے اس بار بھی پہلے دہشت گردی کے ٹھکانوں کا ذکر کرکے چھڑی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن پاکستان نے ماضی میں جس طرح اپنا نیوکلیئر پروگرام بچایا تھا، اسی طرح وہ اب ملک کو امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل ہونے سے بچالے گا۔ اب پاکستان میں تمام ادارے سیاسی قیادت کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہیں‘‘۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ ’’مجھے توقع ہے کہ امریکہ کے ساتھ کشیدگی تو نہیں ہوگی لیکن پاکستان امریکی مفادات کیلئے امریکہ کے ساتھ کمپرومائزنہیں کرے گا‘‘۔
عسکری امور کے ماہر تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ اور امریکی افواج کے سربراہ بھارت سے پاکستان آئیں گے۔ وہ بھارت کا پیغام بھی پاکستان کو دیں گے۔ اس پس منظر میں ایک نئی قیادت کو حقیقت حال سے خبردار کرنا ضروری تھا۔ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ طالبان کی کامیابیاں بڑھتی جارہی ہیں اور افغانستان میں امریکی قبضے کے خلاف احتجاج شروع ہوچکا ہے۔ افغان عوام بھی طالبان کے اس مطالبے کے ساتھ ہیں کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائے۔ وہ مظاہرے کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان دشمن زلمے خلیل زاد کو پاکستان اور افغانستان میں امریکی صدر کا خصوصی نمائندہ بنا کر بھیجے جانے کا امکان ہے، جس سے پاک امریکہ تعلقات میں مزید تلخیاں بڑھ سکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں امریکہ پاکستان سے یہ مطالبہ کرنے آرہا ہے کہ پاکستان یا تو افغان طالبان سے جنگ کرے یا پھر انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے۔ امریکی حکام کا ایجنڈا تو بالکل واضح ہے اور اس واضح ایجنڈے کا جواب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے ایک جیسا ہی ملے، اس کے لیے یہ 8 گھنٹے کی بریفنگ ضروری تھی‘‘۔
٭٭٭٭٭