اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر خزانہ اسد عمر نےکہا کہ ملکی نظام چلانے کیلئے فوری طور پر 9 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، جبکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ پارلیمنٹ کی مشاورت سے ہوگا۔ سینیٹ جلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس وقت 10 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں، یہ تعداد 30لاکھ تک لے جانے کیلئے ٹیکس اصلاحات پر نئے چئیرمین ایف بی آر سے مشاورت کی جائیگی۔ اس موقع پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہم خوش تھے کہ چین ہمارا دوست ہے، اب پتہ چلا کہ چین و سعودیہ کا بھی ہم پر قرضہ ہے، سعودی عرب اور چین سے امداد لی جائے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ کے بیان پر وزیر خزانہ نے کہا کہ سینیٹر کاکڑ چاہتے ہیں کہ چین و سعودیہ سے بھیک لینی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ 5سال میں درآمدات میں بے انتہا اضافہ ہوا جبکہ برآمدات کم ہوتی چلی گئیں، جس کے باعث پیدا خلاحکومت نے قرضوں سے پر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کی بنیادی وجہ کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ضمن میں اقدامات پر عملدرآمد ہونے میں کچھ عرصہ درکار ہوگا۔ سینیٹر شیری رحمان کے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ نلک پہلی بار ایف اے ٹی ایف کے زمرے میں نہیں آیا، اس سے قبل 2008 اور 2012میں پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جاچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس بار نظر ثانی کے بعد انہوں نے پاکستان کو بلیک بلیک کے بجائے گرے لسٹ میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مذکورہ معاملے پر 3ماہ بعد نظر ثانی کی جائے گی۔ بین الاقوامی تنظیم نے5 مختلف کیٹیگریز میں 27خامیوں کی نشاندہی کی، جس میں سے 3اہم معاملات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ کرنسی اسمگلنگ، حوالہ یا ہنڈی سے رقم منتقلی اور کالعدم تنظیموں کو رقم کی فراہمی پر انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں ایف آئی اے اور نیکٹا سمیت تمام اہم ادارے موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس 15مہینے ہیں، اس سے قبل پاکستان کو ان 27خامیوں پر قابو پانا ہے جسکے بعد پاکستان واپس وائٹ لسٹ میں آسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی تنظیم نے جن معاملات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا، اس ضمن میں اقدامات کرنا ہمارے ہی مفاد میں ہے۔