کراچی (رپورٹ : ایس ایم انوار) تین سال سے بند پاکستان اسٹیل مل میں 18 کنٹریکٹ ایمپلائز دوبارہ رکھ لئے جن میں بیشتر سیاسی سفارشی اور اعلیٰ حکام کے چہیتے بتائے جا رہے ہیں۔ 30 جون 2018ء کو ختم ہونے والے کنٹریکٹ میں نہ صرف سال بھر کی غیر ضروری توسیع کی گئی بلکہ سالانہ انکریمنٹ اور دیگر مراعات و سہولیات سے بھی نوازا گیا ہے جو کہ تباہ حال قومی ادارے پر 75 لاکھ سے ز ائد کا اضافی بوجھ ہے۔ فیضاب ہونے والوں میں قائم مقام چیف فنانشل آفیسر محمد عارف شیخ کی پرسنل اسٹاف افسر طاہرہ یاسین بھی شامل ہے، جنہیں حکام نے جونیئر افسر ہونے کے باوجود گاڑی اور رہائش کے لئے H ٹائپ بنگلہ بھی دے رکھا ہے۔ ایڈمنسٹریشن اینڈ پرسونل سے ایکسٹینشن ان کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ پریڈ کے عنوان سے جاری میمورنڈم نمبر A&P/PA/Cont-EXI/2018/7060 کے مطابق ڈپٹی منیجر سید دین محمد شاہ اور سپروائزر سید سکندر علی شاہ کی تعیناتی ٹاؤن شپ ڈیپارٹمنٹ میں دکھائی گئی ہے، منیجر عبدالوحید خان اور اسسٹنٹ منیجر غلام علی اجن کی تعیناتی پرچیز ڈیپارٹمنٹ میں دکھائی گئی ہے۔ AM) عابد حسین خان اور سیف الله شاکر کی تعیناتی انٹرنل آڈٹ ڈیپارٹمنٹ میں دکھائی گئی ہےJO) طاہرہ یاسین اور AM) سلیم خان کی تعیناتی فنانس ڈیپارٹمنٹ میں دکھائی گئی ہے، اسی طرح محمد عثمان سسٹم ڈیولپر کی اینٹی کرپشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی سیل (ACBAC) میں (JO) محمد طارق عباسی کی سیفٹی ڈیپارٹمنٹ میں (AM) عبدالفتح کی ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں محمد جاوید کی پبلک ریلیشن ڈیپارٹمنٹ میں، آفس اسسٹنٹ شمس السلام کی BMD میں (A-XEN) محسن مجبتیٰ بگھیو اور (AM) شاہد علی لودھی کی (ISMD) میں، گارڈ محمد جمیل بگٹی کی سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ میں اور الیکٹریشن مسعود اختر کی (PDN) میں جبکہ اسکلڈ ورکر محمد حیات قریشی کی تعیناتی (SMC) لاہور دکھائی گئی ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض تو کئی کئی دن آفس آنا پسند نہیں کرتے جبکہ 18 افراد کا ایکسٹیشن لیٹر پرسنل P کے میاں ارشد محمود نے انچارج اے اینڈ پی (A-DGM) ریاض حسین منگھی کی طرف سے جاری کیا ہے جبکہ وہ افسران کی ایکسٹیشن کے حوالے سے لیٹر جاری کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں۔ ادھر انتظامیہ کے ایک اور فیصلے کے تحت سید ایم سہیل (DM) مارکیٹنگ جن پر کرپشن کے حوالے سے انکوائری ہوتی رہی ہے، ادارے میں ہی اینٹی کرپشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی سیل (AC&AC) کا انچارج بنا دیا ہے، جبکہ (AC&AC) میں موجود انتظامیہ کے پہلے پنٹر A-XEN عبدالرحمن وڑائچ کو منظر سے ہٹاتے ہوئے (CMD) میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اسٹیل مل کے روزمرہ کے معاملات دیکھنے والے نگراں (A-PEO) نصرت اسلام بٹ جن پر نیب ایف آئی آر اور کرپشن کیسز ہیں وہ تمام اہم پوسٹوں پر اپنے اعتبار کے افسران لگانے میں مصروف ہیں، جن کے ذریعے پاکستان اسٹیل Accountability Cell سے مبینہ کرپشن کے تمام اہم ثبوت غائب کرائے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ نصرت اسلام بٹ کروڑوں روپے کی کرپشن میں دو بار جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ سربراہ سے محروم پاکستان اسٹیل مل میں A-PEO نصرت اسلام بٹ نے اپنے من مانے فیصلے جاری رکھتے ہوئے 68 سالہ ریٹائر افسر ابراہیم راجپوت کو محض حکومتی آڈٹ پیرا کے جوابات دینے کے لئے 2200 روپے یومیہ اجرت پر گورنمنٹ کمرشل آڈٹ (GCA) آفیسر کے طور پر دسمبر 2018ء تک کے لئے بھرتی کر لیا ہے جبکہ اپنے ایک اور دیرینہ دوست سابق منیجر اکاؤنٹس غلام حسین جو کہ 3 ماہ قبل LPR پر گھر جا چکے تھے قوانین کے برخلاف انہیں بھی انکیشمنٹ کر کے نہ صرف واپس بلا لیا بلکہ انارج اکاؤنٹس، انچارج کیش اور انچارج کاسٹ اینڈ اکاؤنٹس جیسی تین اہم پوزشینیں بھی حوالے کر دی ہیں، ذریعے کا کہنا ہے کہ LPR کو انکیشمنٹ میں تبدیل کر کے منیجر غلام حسین کو 10 لاکھ سے زائد کا فائدہ پہنچایا گیا ہے، واضح رہے کہ پاکستان اسٹیل مل کے تمام پیداواری کارخانے جون 2015ء سے بند ہیں اور ادارے میں ہر طرح کی صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں تقریباً معطل ہیں جس کے باعث اسٹیل مل کو فی گھنٹہ 50 لاکھ روپے خسارے کا سامنا ہے جبکہ اس کا مجموعی خسارہ اور اس کے قرضہ جات کا حجم 460 ارب تک جا پہنچا ہے۔