قسط نمبر: 214
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
عام رئیس زادوں کے برعکس ضیاء الدین احمد خان نے اپنی فراغت اور فارغ البالی کو حصول علم کے لئے استعمال کیا۔ فارسی، عربی، ترکی وہ خوب جانتے تھے۔ ادب، انشا، تاریخ، سوانح رجال، تفسیر و حدیث، نجوم وہئت، ہر فن میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ انگریزی سے بھی بیگانہ نہ تھے۔ رفتہ رفتہ کر کے انہوں نے بڑا وسیع اور قیمتی کتب خانہ جمع کرلیا تھا۔ چھوٹی بیگم میں ان کی دلچسپی اب تک صرف غائبانہ تھی، آج شاید حسن اتفاق سے اس میں کچھ تبدیلی ہونے والی تھی۔ انہوں نے نواب مرزا پر اڑتی ہوئی سی نظر ڈالی۔ کئی باتوں میں انہیں نواب مرزا میں اپنے مرحوم سوتیلے بڑے بھائی کی شبیہ جھلک مارتی ہوئی محسوس ہوئی۔ امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد دونوں ہی کو شمس الدین احمد سے ڈرنا اور نفرت کرنا سکھایا گیا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شمس الدین احمد نے گھریلو برتائو کی حد تک دونوں بھائیوں سے شفقت اور ملاطفت ہی روا رکھی تھی۔ آج ضیاء الدین احمد سوتیلے بھائی کا مرحوم وجود کئی طرح کے ذہنی تلاطم میں مبتلا کر گیا تھا۔ اگر بڑے بھائی اور وہ بھی سوتیلے اور قبضہ مخالفانہ رکھنے والے بھائی کی پسماندہ عورت میری تسخیر میں آجائے… لیکن بھائی شمس الدین احمد نے ذاتی طور پر تو میرے ساتھ مہربانی ہی کا سلوک رکھا تھا۔ مجھے اس وقت تو ان کے مرنے رنج نہ ہوا تھا، میری عمرہی کتنی تھی، مگر اب اس لڑکے کو دیکھ کر کچھ رنج ہو رہا ہے، یہی اعتماد، یہی تمکنت ان مرحوم کے بھی چہرے اور ہر بن موسے ٹپکتی تھی۔ ایسی ہی اونچی اور سیدھی گردن۔ ان لوگوں کے اصل حالات کیا ہیں، اس لڑکے کو دیکھ کر کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا۔ آنکھوں میں قطعاً دھند لاہٹ نہیں، پیشانی پر حاشا کچھ بھی رنگ انفعال نہیں۔ بڑا صاحب اقبال نکلے گا۔ بیٹے پر حسن کی یہ چھب ہے تو ماں کا کیا حال ہوگا۔ لیکن میں کیا…۔ بھائی صاحب مرحوم اگر آج ہوتے…۔ خدا معلوم چھوڑ ہی چکے ہوتے، نکاح تو کیا نہیں تھا اور نکاح بھی ہوتا تو کون سی رکاوٹ ہوتا۔ بھائی امین الدین احمد کا خیال نہ جانے کیا ہو، لیکن ان سے مطلب ہی کیا…۔
نواب مرزا نے اس اثنا میں ضیاء الدین احمد خان بہادر کو سر سے پاؤں تک لیکن چپکے چپکے دیکھا۔ بائیس تئیس کا سن، کشیدہ قامت، چھریرا بدن لیکن فراخ سینہ، بلند پیشانی، داڑھی ابھی پوری طرح گھنی نہ تھی لیکن چوکور کچھ مغل کچھ راجپوت طرز کی ترشی ہوئی، مونچھیں بہت گھنی نہیں لیکن نوابی انداز میں چڑھی ہوئی، اوپری سارا لباس سفید ڈھا کے کی ململ کا، نچلے دھڑ میں بنارسی دھاری دار ریشمی آڑے کا پاجامہ۔ ہر ہر انداز اور ہر ہر طور سے نوابی اور عالی دماغی مترشح تھی۔
’’برخوردار نواب مرزا، داغ تخلص، تمہارے بھائی مرحوم کی یادگار ہیں‘‘۔ مرزا غالب نے بزرگانہ شفقت کے ساتھ کچھ اس طرح کہا گویا داغ، شمس الدین احمد اور ضیاء الدین احمد کے مابین کوئی گزشتہ تاریخ، کچھ تناؤ، کچھ سانحے، تھے ہی نہیں۔
’’تو یہ ہیں نواب مرزا، بہت خوب‘‘۔ ضیاء الدین احمد خان نے کچھ خشک سے تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’ابھی گھنشیام لال عاصی صاحب کسی محفل میں ان کا ذکر کر رہے تھے‘‘۔
’’ہاں میاں ان سے تو ہمیں بڑی توقعات ہوگئی ہیں کہ تم لوگوں کے بعد دلی میں کوئی شاعر ایک مدت سے نہ اٹھا تھا‘‘۔ مرزا صاحب نے کہا۔ ’’بھلا ان کا وہ شعر تو تم نے سنا ہوگا، رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں…‘‘۔
’’جی درست، ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے۔ کیا اچھا خیال باندھا‘‘۔
’’میں انہیں تم سے ملانا چاہتا تھا، اس وقت اچھا سنجوگ ہوگیا‘‘۔ مرزا صاحب نے کہا۔ ’’اچھا میاں داغ، یہ تخلص تمہیں کس نے دیا؟‘‘
’’جناب یہ میری والدہ صاحب کا عطا کردہ ہے‘‘۔
’’بھئی اچھا تخلص بہم پہنچایا… اجی وہ تو خود بھی شاعر ہیں؟‘‘۔ مرزا صاحب نے کہا۔ ’’کس کو کلام دکھاتی ہیں؟‘‘۔
’’شاہ نصیر صاحب مرحوم سے کبھی کبھی مشورہ تھا، لیکن اب مدت سے وہ سلسلہ منقطع ہے اور مشق سخن بھی اب چھوٹ گئی‘‘۔
ضیاء الدین احمد خان نے اچانک پہلو بدلا اور بولے: ’’لیکن ان کی ایک رامپوری غزل نے تو بڑی شہرت پائی تھی، کیا زمین تھی اس کی…‘‘۔ انہوں نے ایک پل توقف کیا، ’’ہاں، تصویر ہو بہو، شمشیر ہو بہو‘‘۔
نواب مرزا کو کچھ حیرت ہوئی کہ نواب ضیاء الدین احمد خان بہادر کو اتنی دلچسپی میری والدہ میں کیوں اور کیسے پیدا ہوئی، لیکن اس سوال کا یہ موقع نہ تھا۔
’’جی ہاں، بس وہ ایک غزل ہوگئی تھی‘‘۔ نواب مرزا کو آغا مرزا تراب علی کا ہنس مکھ چہرہ یاد آیا اور ایک لمحے کے لئے وہ چپ ہو رہا، گویا شعر یاد کر رہا ہو۔ پھر تھوڑے سے تامل کے بعد اس نے مطلع پڑھا
ہے زلف یار حلقہ زنجیر ہوبہو
رکھتی ہے آنکھ سحری تاثیر ہو بہو
مرزا غالب اور ضیاء الدین احمد خان دونوں نے شعر کی تعریف کی۔ نواب مرزا نے جھک کر آداب کیا اور تھوڑی سی مزید لیکن رسمی بات چیت کے بعد سلام کرکے رخصت ہوا۔ (جاری ہے)