احمد نجیب زادے
برطانیہ میں علاج کا انتظار ہر سال 10 ہزار مریضوں کی زندگیاں نگلنے لگا۔ برطانوی حکومت نے بڑی مشکل سے اعتراف کیا ہے کہ وزارت صحت کی جانب سے بنائی جانے والی ویٹنگ لسٹ حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ اسپتالوں میں بہترین معالجہ کیلئے دبائو کو کم کرنے کیلئے مریضوں کو ویٹنگ لسٹ پر ڈالنے کے نتائج منفی ہیں اور ہر سال کم از کم دس ہزار مریض ویٹنگ لسٹ میں نام شامل کئے جانے اور علاج کے انتظار میں ملک الموت کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ہلاک ہونے والے دس ہزار مریضوں میں نصف سے زیادہ تعداد معمر برطانوی شہریوں کی ہے۔ ویٹنگ لسٹ پر ڈالے جانے والے مریضوں کی تکالیف اگرچہ فوری علاج کی متقاضی ہیں لیکن ان کو ڈاکٹرز نے منظم پالیسی کے تحت ویٹنگ لسٹ پر ڈالا ہوا ہے اور اسی باعث وہ بیماری کے حملوں سے جان ہار رہے ہیں۔ ویٹنگ لسٹ کے دس ہزار مریضوں کی سالانہ ہلاکت کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس نے اعلان کیا ہے کہ وہ مریضوں کی فلاح و بہبود اور علاج کی خاطر اس سال اضافی دو ارب پائونڈز صرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ڈیلی ایکسپریس نے مصدقہ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ دس ہزار سالانہ مریضوں کی ہلاکت کے یہ اعداد و شمار نصف برطانوی اسپتالوں کے ہیں اور باقی ماندہ پچاس فیصد اسپتالوں کا ڈیٹا حاصل نہیں کیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویٹنگ لسٹ مزید دسیوں ہزاروں مریضوں کو کھا چکی ہے۔ ڈیلی ایکسپریس نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس نے’’حق جانکاری قانون‘‘ کے تحت استفسار پر اعتراف کیا ہے کہ مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں اپائنمنٹ کیلئے مناسب موقع اور ڈاکٹرز کی فراغت کا انتظار کروایا جاتا ہے، تاکہ ان کی طبی جانچ کی جاسکے اور ان کے ٹیسٹ وغیرہ کروائے جاسکیں لیکن بیشتر مریض حکومتی انتظار کی پالیسی کی نذر ہورہے ہیں اور 2013ء سے 2017ء کے درمیان منتظر مریضوں کی ہلاکت کا تناسب 50 فیصد سے اچانک بڑھ کر 100 فیصد ہوچکا ہے اور گزشتہ دو برس میں ویٹنگ لسٹ میں شامل مریضوں کی ہلاکتوں کی تعداد سالانہ دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سلسلہ میں برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن/ اسکاٹش کنسلٹنٹ کمیٹی کے ڈائریکٹر سائمن بارکر کا خیال ہے کہ ویٹنگ لسٹ میں شامل دس ہزار مریضوں کی سالانہ کی اموات کا تناسب اسپتالوں پر دبائو کو ظاہرکرتا ہے لیکن اس سلسلہ میں اسپتالوں کے بارے میں حکومتی حکمت عملی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ علاج کے انتظار میں موت کو سامنے پانے والے مریضوں کو برطانوی اسپتالوں کی انتظامیہ نے بالکل بھی چیک نہیں کیا تھا اور ان کو ابتدائی طبی معائنہ کے لائق بھی نہیں سمجھا گیا اوران کو اولین میڈیکل چیک اپ کیلئے بھی مہینوں دور ڈیٹس دے دی گئیں، لیکن یہ مریض اسی ویٹنگ پیریڈ کے دوران شدت مرض کے سبب موت کا شکار ہوگئے اور یوں ویٹنگ لسٹ سے ان کا نام خود بخود خارج ہوگیا۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سال2017ء کے ابتدائی تین ماہ کے اندر صرف دو بڑے اسپتالوں کی ویٹنگ لسٹ میں شامل ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد 1240 تھی اور ویٹنگ لسٹ میں شامل خود رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 57,000 سے زائد تھی۔ حالانکہ سال 2013 میں ویٹنگ لسٹ میں ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد محض 799 تھی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت ماہ اگست کے آخری ہفتے برطانوی اسپتالوں کی ٹوٹل ویٹنگ لسٹ میں شامل مریضوں کی تعداد 43 لاکھ تھی، جس میں گزشتہ آٹھ برس کی نسبت 87 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں اسکاٹش کنسلٹنٹ کمیٹی کے ڈائریکٹر سائمن بارکر نے تسلیم کیا ہے کہ ہر مریض کو ابتدائی جائزہ یا میڈیکل جانچ کے بغیر ویٹنگ لسٹ میں ڈالنا قرین عقل نہیں ہے، ان میں سے زیادہ بیمار اور فوری علاج کے متقاضی مریضوں کا ابتدائی علاج شروع کیا جانا چاہیئے۔ اس کے بعد ہی ان کو ویٹنگ لسٹ میں بھیجنا چاہئے۔ برطانوی میڈیا نے صدمہ سے گنگ کردینے والی ان معلومات کے بارے میں بتایا ہے کہ ان سے عوام میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، لیکن برطانوی حکومت کا موقف تاحال سامنے نہیں آسکا ہے حالانکہ حکومت کو پہلے ہی ہزاروں مریضوں کی منتظر اموات کا علم تھا۔ برطانوی محکمہ صحت کے حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تسلیم کیا ہے کہ ہزاروں مریضوں کو ویٹنگ لسٹ پر اس لئے ڈالا گیا تھا کہ ان کو مرض کی ابتدائی مرحلہ کی جانچ کیلئے میڈیکل جائزہ اور ٹیسٹوں کیلئے مناسب موقع پرکال کیا جائے گا لیکن کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے منتظر مریضوں کو ملک الموت کی جانب سے ’’موت کا پیغام‘‘ ضرور آگیا۔ سب سے زیادہ مریضوں کی ہلاکت گریٹر گلاسگو، کلائیڈ، گریم پیان اور آئر شائر میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ برطانوی خیراتی اداروں کی جانب سے ہزاروں مریضوں کی علاج کے انتظار میں واقع ہونے والی اموات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ متعلقہ طبی محکمہ کے حکام نے تمام تر مریضوں کو بیک جنبش قلم ویٹنگ لسٹ پر ڈال کر ان کے فون نمبرز لے لئے کہ ان کو رش کم ہوجانے پر بلوایا جائے گا اور ان کا طبی معائنہ اسی وقت کیا جائے گا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ویٹنگ لسٹ میں ڈالے جانیوالے بیشتر معمر مریض مرض کی شدت کی تاب نہ لاکر ہلاک ہورہے ہیں۔ اس منظر نامہ پر تبادلہ خیالات کی دعوت پر برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ ہم اگلے مرحلہ میں یہ پلان بنا رہے ہیں کہ اٹھارہ ہفتوں (ساڑھے چار ماہ) کے اندر اندر 92% رجسٹرڈ مریضوں کا چیک اپ یا تشخیص کا عمل مکمل کرلیں۔