امریکہ نے افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے حکمت یار سے مدد مانگ لی

0

محمد قاسم
امریکا نے افغان طالبان سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے مدد مانگ لی ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان میں سابق امریکی سفیر اور افغانستان اور پاکستان کیلئے ممکنہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے حزب اسلامی سے رابطہ کیا ہے اور باقاعدہ تحریری طور پر مدد طلب کی ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے سابق جہادیوں اور خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کو مذاکرات پر آمادہ کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب اسلامی کی جانب سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے، جس میں زلمے خلیل زاد کو افغانستان اور پاکستان کیلئے بطور نمائندہ خصوصی ممکنہ تعیناتی کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خلیل زاد کی تعیناتی سے امریکی انخلا کا راستہ ہموار ہو جائے گا اور افغانستان میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی لڑائی ختم ہو جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ حزب اسلامی اور زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات کیلئے باضابطہ تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ خلیل زاد اپنے دورہ افغانستان میں حزب اسلامی کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں کہ کس طرح افغانستان میں خانہ جنگی کو روک کر پر امن طور پر امریکا کا انخلا ممکن بنایا جا سکے اور افغان طالبان سے فائنل مذاکرات کر کے انہیں حکومت میں کس طرح شامل کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان اور امریکیوں کے درمیان فائنل مذاکرات سے قبل امریکی، حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ حکمت یار کا افغان طالبان میں کافی اثر و رسوخ بھی پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب امریکی اداے سیگار نے گلبدین حکمت یار کی کابل آمد کو غیر سود مند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سربراہ حزب اسلامی کی آمد سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن قائم نہیں ہو سکا اور افغانستان میں تشدد میں کمی بھی واقع نہیں ہو سکی ہے۔ حزب اسلامی نے گزشتہ روز (اتوار کو) جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلبدین حکمت یار کے آنے سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور جس طرح کے مذاکرات جاری ہیں، اس کو سبوتاژ کرنے سے روکنے کیلئے مذاکرات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکمت یار کی آمد کے بعد امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں اور سیگار کی رپورٹ حقائق کے منافی ہے۔ سیگار نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکمت یار کے آنے سے افغان حکومت، امریکا اور امریکی فوج کو یہ امید ہو چلی تھی کہ افغانستان کے قیام امن میں مدد ملے گی اور تشدد میں کمی واقع ہو جائے گی تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب حکمت یار کے سیکورٹی انچارج کے مطابق گلبدین حکمت یار نے نہ صرف افغان طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکرات میں مدد کی ہے، بلکہ مذاکرات کو اس نہج پر پہنچایا ہے کہ افغانستان میں طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدہ ہونے والا ہے۔ اب صرف خانہ جنگی کو روکنے اور افغان طالبان کو کس طرح حکومت میں شامل کیا جائے، ان نکات پر بات چیت جاری ہے۔
دوسری جانب گلبدین حکمت یار اور امریکیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات اور رابطوں میں اضافے کے بعد کابل حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان اختلافات میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکیوں نے ڈاکٹر اشرف غنی اور سابق صدر حامد کرزئی کی جگہ حکمت یار کو پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے ذریعے ایک مستحکم حکومت میں لانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جس پر افغان حکومت کو سخت تشویش ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے حزب اسلامی کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ کس حیثیت اور کس کی نمائندگی سے بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور انہیں کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس پر حزب اسلامی کے ترجمان اور انجینئر گلبدین حکمت یار کے صاحبزادے انجینئر حبیب الرحمان نے اپنے ایک بیان میں اتحادی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ جان کیری کے ہاتھوں بنائی گئی حکومت کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو دھمکیاں دے۔ موجودہ حکومت عوام کے بجائے جان کیری کی نمائندگی کر رہی ہے۔ لہذا موجودہ حکومت کو ختم ہو نا چاہیے اور آئندہ اس طر ح کی دھمکیاں دی گئیں تو کابل جام کر دیں گے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں عوام کی نمائندگی کر رہی ہیں اور جمہوریت میں سیاسی جماعتیں ہی اہم مقام رکھتی ہیں۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More